ترک

( تَرْک )
{ تَرْک }
( عربی )

تفصیلات


ترک  تَرْک

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مجرد کے باب سے مصدر اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے اردو میں سب سے پہلے ١٧٩٨ء کو قائم کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مذکر - واحد )
١ - دست برداری، چھوڑنا، کنارہ کشی۔
 ہے وہ کافر جو سمجھے اس کو مباح ترک میں اس کے لیے ہے امید فلاح      ( ١٨٨٧ء، ساقی نامہ شقشقیہ، ٢٧ )
٢ - دنیا کو چھوڑ دینے کا عمل، تیاگ۔
"بیوہ کی زندگی ترک اور عبادت کی زندگی ہے۔"      ( ١٩٣٢ء، میدان عمل، ٢٥ )
٣ - بھول چوک، سہو، فرو گزاشت۔
"واسطے اصطلاح ترک یا بے ضابطگی نسبت تحریر اقبال۔"      ( ١٨٩٥ء، ایکٹ نمبر، ٤١٨:١٠ )
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
١ - وہ کلمہ یا لفظ جو صفحہ تمام ہو جانے کے بعد جدول سے باہر صفحے کے اخیر کونے پر آیندہ صحفے کے شروع کی عبارت میں سے لکھ دیتے ہیں یہ ہندسے کی جگہ کام دیتا ہے؛ وہ لفظ یا عبارت جو لکھنے سے رہ جائے اور حاشیے پر لکھ دی جائے۔
"چراغ کے سامنے بیٹھے ہیں اور سوچ سوچ کر ترک ملاتے اور غزل صاف کرتے جاتے ہیں۔"      ( ١٩٨٥ء، شاد کی کہانی شاد کی زبانی، ٤٣ )
٢ - وہ کاغذ کا ٹکڑا یا مور کا پر وغیرہ جو اوراق کے بیچ میں بطور نشان رکھا جاتا ہے تاکہ مطلوبہ صحفہ آسانی سے نکالا جاسکے۔
"تیرے ایک ایک پر کو خوبصورتی کی وجہ سے حافظ لوگ تو قرآن شریف کی ترک بنا کر رکھتے ہیں۔"      ( ١٩٤٠ء، حکایات رومی، ١٨:٢ )