تشنہ

( تَشْنَہ )
{ تَش + نَہ }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے اسم جامد ہے۔ اردو میں ساخت اور معنی کے اعتبار سے بعینہ داخل ہوا۔ اردو میں سب سے پہلے ١٧٧٣ء کو فغاں کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - پیاسا
 کچھ مدارات بھی اے خون جگر پیکاں کی تشنہ مرتا ہے کئی دن سے یہ مہماں میرا      ( ١٧٧٣ء، فغان، انتخاب دیوان، ٧٢ )
٢ - [ مجازا ]  خواہش مند، آرزو مند، مشتاق۔
 خضر تشنہ اس کے ہے دیدار کا مسیحا شہید اس کے بیمار کا      ( ١٨١٠ء، میر (مہذب اللغات)۔ )
٣ - ناقص، نامکمل۔
"اول تو پوری زندگی میں سے صرف تین سال کا عرصہ منتخب کیا گیا پھر ان تین سال کے واقعات بھی حد درجہ تشنہ ہیں۔"      ( ١٩٦٧ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ٣١٤:٣ )
  • thirsty;  thirsting (for)
  • eagerly desiring;  greedy
  • insatiable