اسم مجرد ( مذکر - واحد )
١ - ہلنا، جنبش؛ ہلچل، اضطراب، افراتفری، ابتری۔
تزلزل میں ہے ایوان خلافت تو اس ایوان کا پشتی بان ہو جا
( ١٩٣١ء، بہارستان، ١٤٤ )
٢ - [ قدیم ] تموج، تلاطم، طوفانی حالت۔
واں پانی کا نعرہ ہور آواز باد تزلزل تمام دریا میانے نہاد
( ١٦٤٩ء، خاور نامہ، ٣١٧ )
٣ - زلزلہ، بھونچال۔
یا تزلزل ہے زمین کوچۂ دلدار میں یا کوئی سر پھوڑنے والا پس دیوار ہے
( ١٩٤٢ء، سنگ و خشت، ٣٣٣ )
٤ - دگمگاہٹ، نااستواری، لغزش۔
"وہ برابر بلا کسی ادنٰی تزلزل کے یکساں قول و فعل کے ساتھ مصروف رہے۔"
٥ - فرق آنا، کمی ہونا۔
"اتقا اور پرہیز گاری میں کبھی تزلزل واقع نہ ہوا۔"
( ١٩٣٥ء، چند ہم عصر، ٦٢ )
٦ - بے یقین، تردد۔
"جن کی نیتوں میں تزلزل اور تذبذب پایا ان کو نیک صلاحیں دیں۔"
( ١٩٠١ء، حیات جاوید، ٦٩ )
٧ - ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کا عمل، ہٹنا، (مجازاً) انحراف۔
"ان کے قلم نے اپنی فرضی شناسی سے مطلق تزلزل نہ کیا ہوگا۔"
( ١٩٤٦ء، شیرانی، مقالات، ٣٠ )