تزلزل

( تَزَلْزُل )
{ تَزَل + زُل }
( عربی )

تفصیلات


زلزل  تَزَلْزُل

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ رباعی مزیدفیہ کے باب تفعلل سے مصدر ہے۔ اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦٤٩ء کو "خاور نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مذکر - واحد )
جمع   : تَزَلْزُلات [تَزَل + زُلات]
١ - ہلنا، جنبش؛ ہلچل، اضطراب، افراتفری، ابتری۔
 تزلزل میں ہے ایوان خلافت تو اس ایوان کا پشتی بان ہو جا      ( ١٩٣١ء، بہارستان، ١٤٤ )
٢ - [ قدیم ]  تموج، تلاطم، طوفانی حالت۔
 واں پانی کا نعرہ ہور آواز باد تزلزل تمام دریا میانے نہاد      ( ١٦٤٩ء، خاور نامہ، ٣١٧ )
٣ - زلزلہ، بھونچال۔
 یا تزلزل ہے زمین کوچۂ دلدار میں یا کوئی سر پھوڑنے والا پس دیوار ہے      ( ١٩٤٢ء، سنگ و خشت، ٣٣٣ )
٤ - دگمگاہٹ، نااستواری، لغزش۔
"وہ برابر بلا کسی ادنٰی تزلزل کے یکساں قول و فعل کے ساتھ مصروف رہے۔"
٥ - فرق آنا، کمی ہونا۔
"اتقا اور پرہیز گاری میں کبھی تزلزل واقع نہ ہوا۔"      ( ١٩٣٥ء، چند ہم عصر، ٦٢ )
٦ - بے یقین، تردد۔
"جن کی نیتوں میں تزلزل اور تذبذب پایا ان کو نیک صلاحیں دیں۔"      ( ١٩٠١ء، حیات جاوید، ٦٩ )
٧ - ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کا عمل، ہٹنا، (مجازاً) انحراف۔
"ان کے قلم نے اپنی فرضی شناسی سے مطلق تزلزل نہ کیا ہوگا۔"      ( ١٩٤٦ء، شیرانی، مقالات، ٣٠ )