تذبذب

( تَذَبْذُب )
{ تَذَب + ذُب }
( عربی )

تفصیلات


ذبب  تَذَبْذُب

عربی زبان سے اسم مشتق ہے ثلاثی مزیدفیہ کے باب تفعل سے مصدر ہے اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٨٩٧ء کو "تاریخ ہندوستان" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مذکر - واحد )
١ - شک و شبہ، تردد، پس و پیش۔
"ان کے وزن اور وقعت میں تذبذب اور تزلزل راہ پانے لگا ہے۔"      ( ١٩٥٦ء، آشفتہ بیانی میری، ج )
٢ - غیر یقینی حالت، ہلچل۔
"یہ حال دیکھ کر رانا کو تاب نہ رہی جو جلو رانا کا ہاتھی تھا وہ بھاگا اور افواج میں تذبذب ہوا۔"      ( ١٨٩٧ء، تاریخ ہندوستان، ٣٨٩:٥ )
٣ - [ ادب؛ تنقید ]  سسپینس، تجسس برقرار رکھنے کی کیفیت۔
"داستان میں کیونکہ کرداروں کی بجائے واقعات کو اساسی اہمیت ہوتی ہے اور پھر ان میں بھی دلچسپی اور تذبذب (سسپینس) کی برقراری کے . ضمنی واقعات اور قصص بھی اصل داستان میں ٹھوس دیے جاتے ہیں۔"      ( ١٩٦٨ء، نگاہ اور نقطے، ١٨٧ )
٤ - [ نفسیات ]  اتار چڑھاؤ، ہچکچاہٹ۔
"نزاع جس کے ساتھ جذبی تناؤ تذبذب اور فقدان عمل ہوتا ہے ہمیشہ کے لیے باقی نہیں رہ سکتا۔"      ( ١٩٤٥ء، نفسیات جنون، ٥٨ )
  • ہِچْکَچاہَٹ
  • commotion
  • agitation
  • palpitation;  wavering
  • vacillation;  suspension of judgement;  perplexity;  ambiguity