کلید

( کِلِید )
{ کِلِید }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم ہے اردو میں اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر، مؤنث - واحد )
جمع   : کِلِیدیں [کِلی + دیں (یائے مجہول)]
جمع غیر ندائی   : کِلِیدوں [کِلی + دوں (واؤ مجہول)]
١ - کنجی، چابی، تالی۔
 آساں ہوتی ہے صبر سے ہر مشکل ہر قفل میں یہ کلید ٹھیک آتی ہے      ( ١٩٥٥ء، رباعیات امجد، ٦٠:٣ )
٢ - خلاصہ، شرح، حل۔
"بہت پہلے زندگی اور مسرت کی کلید محبت میں تھی۔"      ( ١٩٨٧ء، ششماہی غالب،١، ١٦١:٢ )
٣ - مشرح، نکتہ، و ضاحتی نکتہ۔
"مبصروں نے اس مصرعے کو بیسویں صدی کے مزاج کی کلید سے تعبیر کیا ہے۔"      ( ١٩٨٨ء، نگار، کراچی، اکتوبر، ٤٩ )
٤ - ٹائپ رائٹر کی کنجی جس پر حرف لکھے ہوتے ہیں اور ٹائپ کرتے وقت انگلی سے دباتے ہیں۔
"ٹائپ رائٹر میں مختلف کلیدوں پر مختلف حروف قائم کیے جاتے ہیں۔"      ( ١٩٦٥ء، ادب و لسانیات، ١٧٧ )
٥ - تربوز
"تربوز کو سردا و کلید کہتے ہیں۔"      ( ١٨٤٦ء، کھیت کرم، ١٣ )