اگلنا

( اُگَلْنا )
{ اُگَل + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان کا لفظ 'اد+ گرنیم' سے 'اگلنا' بنا۔ اردو میں بطور فعل متعدی اور فعل لازم استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٧٦٩ء کو "آخرگشت، رمضان" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - اگل پڑنا۔
 اگلی ہوئی جو میان سے تھی تیغ بے نظیر قبضے نے بڑھ کے چوم لیا دست دستگیر      ( ١٩٦٢ء، ٦٢ کے چند جدید مرثیے، ١٣٧ )
فعل متعدی
١ - نگلی ہوئی چیز کو منہ کے ذریعہ پیٹ سے نکالنا، قے کرنا۔
"مچھلی کو حکم ہوا کہ اس زندانی کو کنارۂ شامی پر ڈال دے اس نے فی الفور اگل دیا۔"      ( ١٨٤٥ء، احوال الانبیا، ٦٧٥:١ )
٢ - منہ میں لی ہوئی چیز کو باہر نکالنا۔
 کہاں جاکے بھرلائی تو منہ میں زہر کہ مجھ پر اگل کر کیا تو نے قہر      ( ١٩١٠ء، قاسم وزہرہ، ٦ )
٣ - (دبی، گڑی یا ڈوبی ہوئی چیز کو) اندر سے اوپر لانا، سطح پر لانا۔
"جس وقت پوری زمین ہلائی جائے گی اور جب وہ اپنے اندر کے بوجھوں کو اگل دے گی۔"      ( ١٩٣٢ء، سیرۃ النبیۖ، ٦٩٢:٤ )
٤ - [ مجازا ]  ہتھیائی ہوئی چیز مجبوراً لوٹانا۔
 محشر کو چاہیے ہے اگلنا پڑے تجھے کھا کر تو مشت خاک کو خوش اے زمیں نہ ہو      ( ١٨٥٤ء، دیوان صبا، غنچۂ آرزو، ١٢٣ )
٥ - دل کی بات سے ظاہر کرنا، راز فاش کرنا، ٹھیک ٹھیک کہہ دینا۔
"وہ بہت سیدھی بلکہ بھولی عورت ہے اگر مل جائے تو وہ سچ بات فورا اگل دے گی۔"      ( ١٩٤٤ء، افسانچے ، ١٧٦ )
٦ - منظر عام پر لانا، نمائش کرنا۔
"مہمان داری ایسی دھوم دھام سے دکھائی گویا ہندوستان نے اپنی ساری شان و شکوہ اگل دی۔"      ( ١٨٨٣ء، دربار اکبری، ٨٩٣ )