اکھاڑا

( اَکھاڑا )
{ اَکھا + ڑا }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان کا لفظ 'اکش+پاٹ' سے 'اکھاڑا' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور ١٧٤٦ء کو "قصہ مہر افروز و دلبر" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : اَکھاڑے [اَکھا + ڑے]
جمع   : اَکھاڑے [اَکھا + ڑے]
جمع غیر ندائی   : اَکھاڑوں [اَکھا + ڑوں (و مجہول)]
١ - کشتی لڑنے یا فن سپہ گری کی مشق کرنے کی جگہ یا میدان چوکور کھودی ہوئی نرم مٹی کی جگہ جس میں پہلوان کشتی کے دانو پیچ سیکھتے لڑتے یا فن سپہ گری کی مشق کرتے ہیں، لڑائی کا میدان۔
"ہمارے ہاں بھی اکھاڑا موجود تھا اور ہم لوگ دو ڈھائی گھنٹے کثرت (کسرت) اور لڑنت کیا کرتے تھے۔"      ( ١٩٣٤ء، بزم رفتگاں، ٦٨ )
٢ - جمگھٹ، مجمع، ہجوم، محفل۔
"پریوں کا اکھاڑا، دیکھا کہ استقبال کی خاطر گلاب پاشیں لیے ہوئے . کھڑا ہے۔"      ( ١٨٠٢ء، باغ و بہار، ٢٤٢ )
٣ - اڈا، مرکز۔
"ان کا مکان شہر کے عیاش لوگوں کا اکھاڑا تھا۔"      ( ١٩٢٢ء، گوشۂ عافیت، ٢٨٢:١ )
٤ - وہ تخت یا چوکی وغیرہ جس پر فن سپہ گری وغیرہ کا سامان آراستہ ہو یا پریاں اور ناچنے والیاں سوار ہوں۔
 یوں تخت حسیناں معانی اتر آئے ہر چشم کو پریوں کا اکھاڑا نظر آئے      ( ١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٢:٢ )