دھڑکنا

( دَھڑَکْنا )
{ دَھَڑک + نا }
( پراکرت )

تفصیلات


دڈھک  دَھڑَکْنا

پراکرت الاصل لفظ 'دڈھک' سے اردو قاعدے کے ماخوذ مصدر 'دھڑکنا' اردو میں بطور فعل استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٦٧٩ء کو "دیوان شاہ سلطان ثانی" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - (دل وغیرہ کا) زور سے حرکت کرنا، اُچھلنا، پھڑکنا۔
 بے پیئے اس کا بہکنا ہائے ہائے بے سبب دل کا دھڑکنھا ہائے ہائے      ( ١٩٤٤ء، نبضِ دوراں، ٤٨ )
٢ - مضطرب ہونا، بے قرار ہونا۔
"تم چلی گئیں اور میری تمام دنیا تمہاری دنیا میں دھڑکتی رہ گئی۔"      ( ١٩٢٢ء، انار کلی، ٥٦ )
٣ - ڈرنا، خوف کھانا، دہلنا۔
 صیاد سے نہ جائے گی پر خاش عمر بھر بلبل کی طرح باغ میں دھڑکا کریں گے ہم      ( ١٨٦١ء، کلیاتِ اختر، ٤٨٥ )
٤ - جلنا، پھڑکنا۔
 یکاہک برہ کے شعلے درونے بیچ بھڑکے ہیں چراغاں سوز کے بل تے مندہر مج دل کے دھڑکے ہیں      ( ١٦٧٩ء، دیوان شاہ سلطان ثانی، ٧٢ )