کم تر

( کَمْ تَر )
{ کَم + تَر }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ صفت 'کم' کے بعد فارسی لاحقۂ تفضیل 'تر' ملنے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو "دیوانِ حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - بہت تھوڑا، (مقابلتاً) درجے یا حیثیت وغیرہ میں چھوٹا یا تھوڑا، نا چیز، حقیر۔
"میرے خیال میں انہیں ترکیبوں کے بدولت وہ مومن ہیں، ورنہ ذوق سے بھی بدتر اور کمتر سمجھے جاتے۔"      ( ١٩٩٠ء، نگار، کراچی، اگست، ٥٧ )
٢ - (مقابلتاً) تعداد، مقدار یا کیفیت میں تھوڑا، کم حیثیت۔
"دہلی میں کم تر لوگوں کو نان شبینہ میسر ہوتی ہے۔"      ( ١٩٧٨ء، لکھنؤ کی شاعری، ٦٢ )
متعلق فعل
١ - شاذ و نادر، نہ ہونے کے برابر، کبھی نہیں۔
"تمہاری طبیعت ایسی سلیم اور ذہن ایسا رسا ہے کہ بہت کمتر تمہیں بتلانے کی حاجت ہوتی ہے۔"      ( ١٨٣٣ء، مفتاح الافلاک، ١٤٦ )