کلامی

( کَلامی )
{ کَلا + می }
( عربی )

تفصیلات


کَلام  کَلامی

عربی زبان سے مشتق اسم 'کلام' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ نسبت ملنے سے 'کلامی' بنا۔ اردو میں اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور صفت اور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٨٩٠ء کو "جواہر الحروف" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - علم الکلام کا ماہر، متکلم۔
"لفظ Alexir یا Eleyirقرون وسطٰی کے کلامی Scholastic فلسفیوں تک عربوں خصوصاً ابن سینا کی کیمیاوی تصانیف کے ذریعے پہنچا۔"      ( ١٩٦٧ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ٥٧:٣ )
صفت نسبتی
١ - بات یا گفتگو کا، زبانی۔
"انسان اگر کلمہ گو ہے تو وہ رہتا ہی مسلمان ہے ہر حالت میں . ہاں رہتا ہے لیکن زبانی کلامی۔"    ( ١٩٨٨ء، ایک محبت سو ڈرامے، ٦٨٧ )
٢ - لسانی
"سوچنے میں کلامی عادات Language Habits کو بہت زیادہ دخل ہوتا ہے۔"    ( ١٩٨٧ء، غزل او غزل کی تعلیم، ٢٩ )
٣ - بولنے کا۔
"کلامی آواز کا یہ اختلاف ابتدا، وسط یا آخر میں ہوتا ہے۔    ( ١٩٨٨ء، نئی اردو قواعد، ٢٨ )
٤ - علم کلام سے متعلق، علم کلام کے مباحث و مسائل پر مشتعمل۔
"عنقریب جب کلامی مسائل شروع ہوں گے تو اس پر ہم تفصیل سے بیان کر دینگے۔"      ( ١٩٥٩ء، مقالاتِ ایوبی، ١١:١ )