دھنسنا

( دَھنْسنا )
{ دَھنْس (ن غنہ) + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


دھونست  دَھنْسنا

سنسکرت الاصل لفظ 'دھونست' سے اردو قاعدے کے تحت ماخوذ مصدر ہے۔ اردو میں بطور فعل استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٢٢٥ء کو "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - داخل ہونا کسی سطح کے اندر گُھس جانا، گھسنا، بھسم ہو جانا، گُھس جانا، گڑجانا۔
 نظر بد سے خدا عون و محمد کو بچائے دیکھنا کیسے دھنسے جاتے ہیں تلواروں میں      ( ١٩٢٧ء، معراجِ سخن، ٧٤ )
٢ - زمین میں اترنا۔
 خوش باش رہیے صاحبو! اور آپ سے برس دلدل میں دھنسے جاتے ہیں بہتر ہے کیجیے بس      ( ١٩٨٤ء، قہر عشق، ١٨٥ )
٣ - اندر کی جانب ہونا، پچکا ہوا۔
"اب کی ایک خاص بات یہ تھی کہ پیٹ دھنسے ہوئے تھے۔"      ( ١٩٥٨ء، خونِ جگر ہونے تک، ١٧٩ )
٤ - جال میں پھنسا، کسی بات پر آمادہ ہونا۔
"جیتا نکوں تو کستا، اس کام پر کوئی نہیں دھنستا۔"      ( ١٦٣٥ء، سب رس، ٤٠ )
٥ - گھلنا، آہستہ آہستہ ختم ہونا۔
 دھنس گئے ہیں ضعف کے مارے جو ہجر یار میں میں کنواں کہتا ہوں اپنے دیدۂ نمناک کو      ( ١٨٣١ء، دیوانِ ناسخ، ١٢١:٢ )