دھندلا

( دُھنْدْلا )
{ دُھنْد (ن غنہ) + لا }
( سنسکرت )

تفصیلات


دھوم+اندھ  دُھنْدْلا

سنسکرت سے اردو میں ماخوذ اسم کیفیت 'دھند' کے ساتھ 'لا' بطور لاحقہ فاعلی بڑھانے سے 'دھندلا' بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٦٩٥ء کو "دیپک پتنگ" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : دُھنْدْلی [دُھنْد (ن غنہ) + لی]
واحد غیر ندائی   : دُھنْدْلے [دُھنْد (ن غنہ) + لے]
جمع   : دُھنْدْلے [دُھنْد (ن غنہ) + لے]
١ - تِیرہ و تار (جس کے خطوط نقوش واضح نہ ہوں)۔
"اچانک انکا چہرہ دھندلا ہو گیا شاید بارش تیز ہو گئی تھی۔"    ( ١٩٨٠ء، دائروں میں دائرے، ١٥٢ )
٢ - غیر شفاف، گدلا، میلا۔
 آنکھوں میں تاریک اجالا، دھندلا اور مدھم اور دور کہیں روتی آوازوں کا ماتم    ( ١٩٦٦ء، زرد آسمان، ٥٧ )
٣ - ماند، مدھم، کم روشنی والا۔
 شہر سے دور اِک خرابے میں ایک دھندلا چراغ روشن ہے    ( ١٩٨٤ء، سمندر، ٥٣ )
٤ - غیر شفاف، ہلکا، غیر واضح۔
"دوسرے ہی لمحے میں اُسے ایک دھندلا سا چہرہ دِکھائی دینے لگا جس کے گرد دوپٹا لپٹا ہوا تھا۔"    ( ١٩٨٣ء، ساتواں چراغ، ٤٧ )
٥ - [ مجازا ]  غیر واضح، غیر متعین۔
"ہماری موجودہ سیاسی مشینری مختلف قوموں اور جماعتوں کے کشاکش اقتدار کے ذریعے دھندلا کر دیتی ہے۔"      ( ١٩٨٥ء، ترجمہ: روایت اور فن، ٦٠ )
  • تارِیک
  • تِیَرہ
  • Hazy
  • misty