دھندا

( دَھنْدا )
{ دَھن + دا }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت سے اردو میں ماخوذ ہے اور عربی رسم الخط میں بطور اسم استعمال ہوتاہے اور سب سے پہلے ١٥٠٣ء کو "لازم المبتدی (قلمی نسخہ)" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : دَھنْدے [دَھن + دے]
جمع   : دَھنْدے [دَھن + دے]
جمع غیر ندائی   : دَھنْدوں [دَھن + دوں (و مجہول)]
١ - کارو بار، مشغلہ۔
"اور یہ لوگ فوج سے بھاگے ہی اپنا پرانا دھندا کرنے کے لیے تھے۔"    ( ١٩٨٦ء، جوالا مکھ، ٢١٤ )
٢ - ملازمت، کاروبار، روزگار۔
"ارے بیٹی میرا مطلب تھا دھندا کیا کرتے ہیں۔"    ( ١٩٧٦ء، بوئے گل، ٤١ )
٣ - بُرا پیشہ، جسم فروشی۔
"نیلوفر کا دھندا تو تھا ہی تاریکی کا۔"    ( ١٩٦٢ء، معصومہ، ٨٢ )
٤ - بکھیڑے، جَھگڑے۔
 کون کس کا ہے فقط وہم ہے تیرا میرا ہے یہ سب ہستی موہوم کا جھوٹا دھندا    ( ١٨٦٦ء، فیض حیدر آبادی، دیوان، ٧٦ )
٥ - طریقہ، شعار، طرز۔
"واہ اس ترقی کے زمانے میں کیا کیا نئے دھندے نکلے ہیں۔"      ( ١٩٠٩ء، خوبصورت بلا، ١٢ )
٦ - مشغولیت، مصروفیت، بے مصرف کام۔
"پھر اسے گھر سے دھندوں سے بھی کم ہی فرصت ملتی تھی۔"      ( ١٩٥٤ء، شاید کہ بہار آئی، ٣١ )
٧ - عیش و عشرت، یار باشی۔
"کوئی سا چہرہ لگاے منجی و مہربان کا چہرہ یا مظلوم رعایا کے نگہبان کا چہرہ، چہروں کا کاروبار آج کا نہیں پرانا دھندا ہے۔"      ( ١٩٨٦ء، فیضانِ فیض، ٨٧ )
٨ - شوق، لگن۔
 لگا افی کا جب سینے کو دھندا بھرا آنکھوں میں دھاگوں سے نگندا      ( ١٧٦٤ء، عاجز، قصۂ لال و گوہر (اردو کی قدیم منظوم داستانیں، ٥١:١ )
٩ - [ مجازا ]  یادِ خدا، عبادت۔
"دنیا میں طرح طرح کے کاروبار اور رنگا رنگ اشغال مروج ہیں ایسے ہی خدا جوئی اور خداشناسی بھی ایک دھندا ہے۔"      ( ١٨٨٤ء، تذکرۂ غوثیہ، ١٤٢ )