اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - کارو بار، مشغلہ۔
"اور یہ لوگ فوج سے بھاگے ہی اپنا پرانا دھندا کرنے کے لیے تھے۔"
( ١٩٨٦ء، جوالا مکھ، ٢١٤ )
٢ - ملازمت، کاروبار، روزگار۔
"ارے بیٹی میرا مطلب تھا دھندا کیا کرتے ہیں۔"
( ١٩٧٦ء، بوئے گل، ٤١ )
٣ - بُرا پیشہ، جسم فروشی۔
"نیلوفر کا دھندا تو تھا ہی تاریکی کا۔"
( ١٩٦٢ء، معصومہ، ٨٢ )
٤ - بکھیڑے، جَھگڑے۔
کون کس کا ہے فقط وہم ہے تیرا میرا ہے یہ سب ہستی موہوم کا جھوٹا دھندا
( ١٨٦٦ء، فیض حیدر آبادی، دیوان، ٧٦ )
٥ - طریقہ، شعار، طرز۔
"واہ اس ترقی کے زمانے میں کیا کیا نئے دھندے نکلے ہیں۔"
( ١٩٠٩ء، خوبصورت بلا، ١٢ )
٦ - مشغولیت، مصروفیت، بے مصرف کام۔
"پھر اسے گھر سے دھندوں سے بھی کم ہی فرصت ملتی تھی۔"
( ١٩٥٤ء، شاید کہ بہار آئی، ٣١ )
٧ - عیش و عشرت، یار باشی۔
"کوئی سا چہرہ لگاے منجی و مہربان کا چہرہ یا مظلوم رعایا کے نگہبان کا چہرہ، چہروں کا کاروبار آج کا نہیں پرانا دھندا ہے۔"
( ١٩٨٦ء، فیضانِ فیض، ٨٧ )
٨ - شوق، لگن۔
لگا افی کا جب سینے کو دھندا بھرا آنکھوں میں دھاگوں سے نگندا
( ١٧٦٤ء، عاجز، قصۂ لال و گوہر (اردو کی قدیم منظوم داستانیں، ٥١:١ )
٩ - [ مجازا ] یادِ خدا، عبادت۔
"دنیا میں طرح طرح کے کاروبار اور رنگا رنگ اشغال مروج ہیں ایسے ہی خدا جوئی اور خداشناسی بھی ایک دھندا ہے۔"
( ١٨٨٤ء، تذکرۂ غوثیہ، ١٤٢ )