دھونی

( دُھونی )
{ دُھو + نی }
( سنسکرت )

تفصیلات


دھومکا  دُھونی

سنسکرت زبان کے لفظ 'دھومکا' سے اردو میں ماخوذ 'دھونی' بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٧٨٤ء کو "دیوانِ درد" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : دُھونِیاں [دُھو + نِیاں]
جمع غیر ندائی   : دُھونِیوں [دُھو + نِیوں (و مجہول)]
١ - دھنواں، سوزش، تپش۔
 نہ وہ نالوں کی شورش ہے نہ ہے آہوں کی وہ دھونی ہوا کیا درد کو پیارے گلی کیوں آج ہے سُونی      ( ١٧٨٤ء، درد، دیوان، ٩٦ )
٢ - وہ دھواں (یا بخار) جو کسی چیز کے آگ میں جلنے سے اُٹھے۔
" میں نے یہ بھی ٹھان لی ہے کہ تمہیں آج رات میں پاک دھونی سے متبرک بناؤں۔"      ( ١٩٤٢ء، الف لیلہ و لیلہ، ١١٨:٢ )
٣ - ہندو فقیروں کے آگے سلگنے والی آگ کا ڈھیر۔
"دھونی ٹھنڈی پڑی تھی مگر دیوٹ پر چراغ ٹمٹما رہا تھا۔"      ( ١٩٣١ء، نہتا رانا، ١٨٢ )
٤ - بخور، خوشبو کی اشیاء جو آگ پر ڈالی جاتی ہیں اور جس کا دھنواں کیا جاتا ہے۔
"عامل صاحب کی تعویز پہنچ گیا . دھونی پنجاب سے آگئی ہے۔"      ( ١٩١٤ء، غدر دہلی، ١٠٩:١ )
  • Smoke;  the smoke-fire over which a Hindu ascetic sits inhaling the smoke by way of penance (it is also often practiced in the manner of dharna to extort compliance with demands);  fumigation
  • or the burning of incense (to purify the air
  • or as a mediacal application or to exorcise one possessed)