آثار[2]

( آثار[2] )
{ آ + ثار }
( فارسی )

تفصیلات


یہ اصلاً فارسی کا لفظ ہے اور اصلی حالت اور اصلی معنی میں ہی اردو میں مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٧٦٩ء میں "آخرگشت" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : آثاروں [آ + ثا + روں (واؤ مجہول)]
١ - بنیاد، نیو، دیوار کا پایہ۔
"جس دیوار کا گز بھر آثار ہو اس کی مضبوطی کی کیا بات ہے"۔      ( ١٨٩١ء، امیراللغات، ٦٢:١ )
٢ - دیوار کی چوڑائی، چکلان یا موٹائی۔
"کچی اور بوسیدہ دیواریں چھوٹے چھوٹے آثار ٹوٹی پھوٹی منڈیریں . پتہ دے رہی ہیں۔"      ( ١٩١٨ء، انگوٹھی کا راز، ٦ )
١ - آثار بھرنا
بنیاد پُر کرنا، بنیاد کی تہ پختہ کرنا، چننا۔ ہموار کرنا۔(ماخوذ : اصطلاحات پیشہ وراں، ٩٨:١)
٢ - آثار پڑنا
نیو یا بنیاد قائم کی جانا۔"مکان کے آثار پڑ گئے ہیں، اب تعمیر شروع ہو گی۔"      ( ١٨٩١ء، امیراللغات، ٦٣:١ )
٣ - آثار چھوڑنا
بنیاد کے آثار کی چوڑان سے حصّّہ چھوڑ کر اوپر کی چنائی کرنا، آثار چھوٹا کرنا۔"تین انچ آثار چھوڑ کر دیوار کی چنائی شروع کی جائے۔"      ( ١٩٣٩ء، اصطلاحات پیشہ وراں، ٩٨:١ )
٤ - آثار دینا
دیوار کا عرض مقرر کرنا۔"جینی ستونوں کی طرح . جن پر گول آثار دے کر گنبد بنانا سہل تھا۔"      ( ١٩٣٢ء، اسلامی فن تعمیر، ٤١ )
٥ - آثار ڈالنا / رکھنا
آثار پڑنا کا تعدیہ، جیسے : آج آثار ڈال لوکل سے دیوار اٹھانا؛ آثار رکھ کے چھوڑ دو برسات بعد مکان بنوا لینا۔ ایک موتی کا ملے جنت میں گھر معمار کو واہ کیا رکھا ہے قصریار کا آثار خوش      ( ١٨٥٤ء، دیوان صبا، غنچۂ آرزو، ٦٨ )
٦ - آثار نکالنا
دیوار کے عرض کے لیے گنجائش رکھنا۔ (اصطلاحات پیشہ وراں، ٩٨:١)
  • Origin;  basis
  • foundation (of a building);  breadth of a wall