انشائیہ

( اِنْشائِیَہ )
{ اِن + شا + ئِیَہ }
( عربی )

تفصیلات


نشی  اِنْشاء  اِنْشائِیَہ

عربی زبان سے مشتق اسم 'انشا' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ نسبت اور 'ہ' بطور لاحقۂ تانیث لگانے سے بنا۔ اردو میں بطور اسم اور صفت استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٨٧٣ء کو "عقل و شعور" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - انشا سے تعلق رکھنے والا۔
"وقار الملک کی عالمانہ فضلیت اور ادبی و انشائیہ قابلیت پر بھی کوئی بحث و تبصرہ نہیں۔"      ( ١٩٣٨ء، دیباچہ تذکرۂ وقار، ٥ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : اِنْشائِیے [اِن + شا + ئِیے]
جمع   : اِنْشائِیے [اِن + شا + ئِیے]
جمع غیر ندائی   : اِنْشائِیوں [اِن + شا + ئِیوں (و مجہول)]
١ - [ نحو ]  وہ جملہ جس میں سچ جھوٹ کا احتمال نہ ہو۔
"دوسرے وہ جس کو سچا یا جھوٹا نہ کہہ سکیں اس کا نام انشائیہ ہے۔"      ( ١٩٠٤ء، مصباح القواعد: ١٨٧ )
٢ - مختصر ادبی مضمون جس میں ذاتی تاثرات بیان کیے جائیں اور تحقیق و استدلانی نہ ہو، (انگریزی) Essay۔
"انشائیہ کی بحث میں عموماً شگفتگی کو طنز و مزاح کا مترادف تصور کر لیا جاتا ہے۔"      ( ١٩٧١ء، فکرو خیال، ٢٧٣ )