امکان

( اِمْکان )
{ اِم + کان }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٧٠٧ء کو "کلیات ولی" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - ممکن
"فدوی پر کیا امکان کہ تلوار اثر کرے۔"      ( ١٨٤٨ء، تاریخ ممالک چین، ١٣٠:١ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع   : اِمْکانات [اِم + کا + نات]
١ - ممکن ہونے کی صورت حال، ہو سکنا، محال کی ضد۔
"اس موقع پر ہمارا یہ مقصد ہے کہ نفس کرامت کے امکان یا امتناع پر بحث کریں۔"      ( ١٩١٤ء، حالی، مقالات، ٢٨٧:١ )
٢ - مجال، مقدور، طاقت۔
 جلنے والو تابہ امکان ضبط سوز غم کرو آگ جب بھڑک چراغ سرحد منزل بنو      ( ١٩٢٠ء، انجم کدہ، ١٩ )
٣ - اختیار، قابو۔
"میرا گواہ میری کوشش سے میرے امکان سے باہر اور میری دسترس سے بہت دور ہے۔"      ( ١٩١٧ء، شہنشاہ کا فیصلہ، ٢٨ )
٤ - وجود کی وہ حالت جو عارضی ہو اور جس میں کسی شے کا ہونا نہ ہونا دونوں یکساں ہوں، وجوب کی ضد، (مجازاً) عالم فنا۔
"امکان اور وجوب میں نقص اور کمال کی نسبت ہے۔"      ( ١٩٤٠ء، اسفار اربعہ، ١، ١٠٦٣:٢ )
٥ - ممکنات و مخلوقات، موجودات عالم (اکثر عالم یا دنیا کے ساتھ مستعمل)۔
"ایک کلمۂ کن سے عالم امکان بنایا۔"      ( ١٨٤٥ء، حکایات سخن سنج، ٢ )