١ - صوتی اعتبار سے اردو حروف تہجی کا پینتالیسواں، عربی کا چوبیسواں، فارسی کا اٹھائیسواں حرف جسے میم تلفظ کرتے ہیں، یہ شغوی یعنی ہونٹوں سے ادا ہونے والا حرف ہے۔ حسابِ جمل میں اس کے چالیس عدد مقرر ہیں، حرف میم عام طور پر مسیح، میلادی، متوفی، محمد، میل، میٹر، مثال، مثلاً اور مسمّٰی وغیرہ کی تخفیف کے لیے آتا ہے، جیسے: آخر کلمہ ق م وغیرہ علاہ ازیں حروف مقطعات میں بھی ہے، جیسے: امل، فارسی میں ضمیر واحد متکلم کی علامت: بردارم، گفتم، نیز گا ہے ام جیسے قبلہ ام، پردر زادہ ام (جبکہ حرف ماقبل یائے مختفی ہو یا حرکت مفتوح)۔ بعض اوقات املا میں ن غنہ مخلوط بہ ب کی جگہ لکھا جاتا ہے، جیسے: کنبھ (کمبھ)، کھنبا (کھمبا) کنبوہ (کمبوہ)۔ مغلوں کے زمانے میں شاہی جاگیر معافی کے حکم کے آخر میں دیوان حرف میم بطور دستخط کے لکھا کرتا تھا۔ امور و اوقاتِ قرآنی میں وقف لازم اور ماہ محرم کے اختصار کی علامتِ نفی، جیسے: مبادا، ملن وغیرہ، جب اس کے ماقبل پیش ہو تو اعداد میں فاعلیت کے واسطے آتا؛ جیسے: یکدم، چہارم وغیرہ میں، فارسی ہندی میں حروف ذیل سے بدلتا ہے ب، پ،ٹ،ج،غ،گ،ل،ن؛ جیسے: ب کا بدل مثلاً غژب، غژم پ کا بدل سپاروغ، سماروغ، غ کا بدل مثلاً، پیغانہ پیمانہ وغیرہ۔
"اردو میں "م" "ن" دو غنہ آوازیں ہیں "م" شغوی یعنی ہونٹ والی آواز ہے۔"
( ١٩٦٦ء، اردو لسانیات، ١١٧ )