بستگی

( بَسْتَگی )
{ بَس + تَگی }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان کے مصدر 'بستن' کا صیغہ حالیہ تمام 'بستہ' سے 'ہ' حذف کر کے 'گی' بطور لاحقۂ کیفیت ملنے سے 'بستگی' بنا۔ اردو میں بطور اسم اور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٠٧ء کو "کلیات ولی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : بَسْتَگِیاں [بَس + تَگِیاں]
جمع غیر ندائی   : بَسْتَگِیوں [بَس +تَگِیوں (واؤ مجہول)]
١ - انقباض خاطر، طبیعیت کی افسردگی، گرفتگی (دل وغیرہ کے لیے)۔
"جو محاورے قلعہ معلّٰی سے شہر میں پھیلتے تھے ان کی وجہ سے اہل شہر کو اپنی زبان پر بھی فخر ہوتا تھا . مثلاً تڑپنا بمعنی پھڑکنا . بستگی، انقبضاض خاطر۔"      ( ١٩١٥ء، مرقع زبان و بیان دہلی، ١٩ )
٢ - وابستگی، تعلق۔
 بستگی دل کو ہے کیوں اس گرہ زلف کے ساتھ کیا کہیں کچھ نہیں کھلتا یہ معما ہم کو      ( ١٨٥٤ء، دیوان ذوق، ١٤٩ )
٣ - تنگی بند ہونے کی کیفیت۔
"ہر بستگی کے بعد کشادگی اور ہر غم کے پیچھے راحت۔"      ( ١٩٠٦ء، الحقوق والفرائض، ٨٦:٣ )
٤ - انجماد، جامد ہونے کی کیفیت، جمود۔
"بڑی بڑی کمینوں کی شکل میں ان کی بستگی کے لیے ممکن ہے پانی اور امونیا نے انہیں نم کر دیا ہو۔"      ( ١٩٦٨ء، کاروان سائنس، ٥، ٢٧:١ )
٥ - باندھے جانے کا عمل (رسی وغیرہ سے)۔
 جیتے جی بابا کے جو دیکھا نہ دیکھے وہ کوئی قتل ہونا اقربا کا اور حرم کی بستگی      ( ١٨٣١ء، مراثی دگیر، ٣٠ )
صفت نسبتی
١ - [ مجازا ]  وابستہ، تعلق رکھنے والا۔
 لالۂ خونیں کفن کے حال سوں ظاہر ہوا بستگی ہے خال سوں خوباں کے داغ زندگی      ( ١٧٠٧ء، کلیات ولی، ١٩٠ )