برملا

( بَرمَلا )
{ بَر + مَلا }

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ لاحقہ 'بر' کے بعد عربی اسم 'ملا' ملنے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور متعلق فعل استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٧٣٩ء کو "کلیات سراج" میں مستعمل ملتا ہے۔

متعلق فعل
١ - کھلم کھلا، علانیہ، کھلے خزانے۔
 جو اس کے حسن کے جلوے نہ خود نما ہوتے اشارے طور پہ ہرگز نہ ہر ملا ہوتے      ( ١٩٤٧ء، نوائے دل، ٣٧٣ )
٢ - آشکار، ظاہر۔
 جو موسٰی نے دیکھی وہ پردے کی ضد تھی ترا حسن کی برملا ہو سکا ہے      ( ١٩١١ء، نذر خدا، ١٤٢ )
  • عَلانِیَہ
  • کُھلَم کُھلا