خراج

( خَراج )
{ خَراج }
( عربی )

تفصیلات


خرج  خَراج

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : خَراجوں [خرا + جوں (و مجہول)]
١ - زمین کا محصول، مالگزاری، لگان۔
"میں نے تمہارے لیے اتنی دولت جمع کر دی ہے کہ تم کورس سال تک بھی خراج نہ ملے . تو شکایت نہ ہو گی۔"      ( ١٩٧٥ء، تاریخ اسلام، ندوی، ٥٢:٣ )
٢ - اسلامی حکومتوں میں رائج ایک زرمالیہ جو غیر مسلموں سے وصول کیا جاتا تھا۔
"خراج وہ مالیہ زمین تھا جو غیر مسلموں سے لیا جاتا تھا۔"      ( ١٩٦٥ء، تاریخ ہندو پاک، ١٥٢ )
٣ - نقد یا جنس جو ایک ماتحت یا مفتوح حاکم فاتح کو ادا کرے، باج۔
"یہ دونوں حکومتیں پہلے مگدھ دیس کے حکمرانوں کو خراج دیتی تھیں۔"      ( ١٩٥٥ء، مدراراکھش، ١٢ )
٤ - نذرانہ، تحفہ۔
"اقبال کے حضور میں اپنی عقیدت کا بہترین خراج یہ ہے کہ ہم کبھی اس پیغام سے غافل نہ ہوں۔"      ( ١٩٨٣ء، خطبات محمود، ٧٦ )
٥ - [ مجازا ]  سند قبولیت، تعریف، داد و تحسین، انعام اکرام۔
"پونے دوسال میں جس ہستی نے حضرت علامہ راشد الخیری کے قلم سے یہ خراج حاصل کیا . وہ غیر معمولی دل و دماغ کی خاتون تھی۔"      ( ١٩٨٣ء، نایاب ہم ہیں، ١٠٥ )
٦ - [ مجازا ]  راہ داری کا جرمانہ۔
 کہ وہ رہ روی کا مزاج تھا کہ وہ راستوں کا خراج تھا      ( ١٩٨٣ء، بے نام، ٩٤ )
  • tax
  • tribute
  • impost
  • duty
  • revenue