استقبالیہ

( اِسْتِقْبالِیَہ )
{ اِس + تِق (کسرہ ت مجہول) + با + لِیَہ }
( عربی )

تفصیلات


قبل  اِسْتِقْبال  اِسْتِقْبالِیَہ

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ عربی زبان کے لفظ 'استقبال' کے ساتھ فارسی قاعدے کے تحت 'ی' بطور لاحقۂ نسبت لگا کر 'ہ' بطور لاحقۂ تانیث لگایا گیا ہے۔ ١٩٦٥ء کو 'میزان" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مذکر )
جمع   : اِسْتِقْبالِیے [اِس + تِق + با + لِیے]
جمع غیر ندائی   : اِسْتِقْبالِیوں [اِس + تِق + بالِیوں]
١ - جماعت استقبالیہ کے صدر یا سیکرٹری کا خطبہ یا ایڈریس، جیسے : ان کا استقبالیہ وقت کی اہم ضرورتوں کے موضوع پر مشتمل تھا۔
اسم جمع ( مؤنث - واحد )
واحد غیر ندائی   : اِسْتِقْبالِیے [اِس + تِق + با + لِیے]
جمع   : اِسْتِقْبالِیے [اِس + تِق + با + لِیے]
جمع غیر ندائی   : اِسْتِقْبالِیوں [اِس + تِق + با + لِیوں (و مجہول)]
١ - وہ کمیٹی یا انجمن جو کسی اجتماع وغیرہ کے اہتمام کے لیے بنائ جاتی ہے۔
'جناب صدر استقبالیہ کے کرم گستراز الفاظ کے لیے میں انتہائ احسان مند ہوں۔"      ( ١٩٦٢ء، میزان، ١٠٦ )
٢ - استقبال کرنے والوں کی جماعت یا بھیڑ۔
'استقبالیہ کے اژدہام میں پھنس کر کچلے جانے سے بال بال بچ گئ۔"      ( ١٩٦٥ء، سہ ماہی 'کاروان سائنس' کراچی، ٢، ٩٥:٣ )
صفت نسبتی
١ - استقبال سے منسوب۔     
'مکبرین کے ذریعے تکبیرات استقبالیہ کی آوازیں آخری صفوں تک پہنچائی جائیں۔"     رجوع کریں:   ( ١٩٦٤ء، پاکستانی کلچر، ٢٠٨ )