بہشتی

( بِہِشْتی )
{ بِہِش (کسرہ ب مجہول) + تی }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'بہشت' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ نسبت لگانے سے 'بہشتی' بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٥٠٣ء کو "اردو ادب" کے حوالے سے 'نوسرہار' میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت نسبتی ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : بِہِشْتَن [بِہِش (کسرہ ب مجہول) + تَن]
جمع غیر ندائی   : بِہِشتِیوں [بِہِش (کسرہ ب مجہول) + تِیوں (واؤ مجہول)]
١ - جنتی، جنت کا حقدار، نیک، پارسا۔
"وہ زمانہ اللہ والوں کا تھا بہشتی بندے بستے تھے۔"      ( ١٩٤٦ء، مقالات شیرانی، ٢٢ )
٢ - مرحوم و مغفور۔
"کیا تم نہیں جانتیں کہ بھائی بہشتی کو علم کا کیا شوق تھا۔"      ( ١٨٧٤ء، مجالس النساء، ٤٤:٢ )
٣ - بہشت سے منسوب، بہشت کا باشندہ، بہشت کی کوئی چیز۔
"نام اس کا بمناسب مذاق نسواں بہشتی زیور رکھا گیا . چنانچہ جنت میں ان ہی کی بدولت زیور پہننے کو ملے گا۔"      ( ١٩٠٢ء، بہشتی زیور، ٥:١ )
  • of or pertaining to paradise;  celestial