"ان کی آنے کی اور کھٹ کھٹ کی آواز سنی تو بھاگنے کی تیاری کی اور اس بھگدڑ میں ان کے پروں اور بازوؤں اور چونچوں اور پنجوں سے حضرت کے پنتھر بگڑ گئے۔"
( ١٨٩٢ء، خدائی فوجدار، ٧٢:٢ )
٢ - 1857ء کا غدر۔
"اجزائے قصیدہ میں ایک جز ایسا ہے جہاں ١٨٥٧ء کی بھگدڑ دکھائے بغیر گزر نہیں۔"
( ١٩٣٦ء، اودھ پنچ لکھنؤ، ٢١، ٤:١٩ )
٣ - بھاگنے کی ہلچل، افراتفری۔
"کسی جا شور و شیون کی صدا بلند ہوئی کسی جا بھگدڑ پڑی، مال اسباب چھوٹ گیا۔"
( ١٨٩٠ء، طلسم ہوشربا، ٣٩:٤ )