بیساکھی

( بیساکھی )
{ بے + سا + کھی }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان سے ماخوذ اسم 'بیساکھ' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ نسبت لگانے سے 'بیساکھی' بنا۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٠٥ء کو "آرائش محفل" میں افسوس کے ہاں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر، مؤنث - واحد )
جمع   : بیساکِھیاں [بے + سا + کِھیاں]
جمع غیر ندائی   : بیساکِھیوں [بے + سا + کِھیوں (واؤ مجہول)]
١ - [ ہندو ]  گنگا کے نہان کا ایک میلہ جو بیساکھ کے مہینے میں ہوتا ہے، (کاشتکاری) گیہوں کی کٹائی سے پہلے کسانوں کا جشن۔
"گنگا نہان، ماگھی میلہ، بیساکھی، چھتر کا میلہ وغیرہ وغیرہ۔      ( ١٩١٥ء۔ سجاد حسین، حاجی بغلول، ١١٩ )
٢ - وہ لاٹھی جس کے سہارے (عموماً بغل کے تلے رکھ کر) لنگڑے چلتے ہیں۔
"تیری بیساکھیوں کو بغلوں کے نیچے دبا کے نہ کھڑے ہوئے ہوتے تو قدم قدم پر گرتے۔"      ( ١٩٢٣ء، مضامین شرر، ٣٨٧:١ )
٣ - تھونی، آڑ، جو چھپر کے نیچے لگاتے ہیں۔ (فرہنگ آصفیہ، 466:1)
٤ - چھپر کے سامنے کی آڑواڑ، معمولی قسم کا تھم یا ٹیک جس پر پلینڈا رکھا جاتا ہے تھونی، چڑیا۔ (اصطلاحات پیشہ وراں، 11:1)
٥ - بڑی ہڈ۔ (فرہنگ آصفیہ، 466:1، نوراللغات، 785:1)
٦ - بیساکھ کے مہینے میں پورے چاند کی رات، (مجازاً) پورے چاند کا دن۔ (ماخوذ: پلیٹس، نوراللغات، 785:1)
٧ - کہاروں کی لکڑی جو ڈولی یا پینس اٹھاتے وقت وہ ہاتھ میں رکھتے ہیں اور کندھا بدلتے وقت ڈولی یا پینس کا ڈنڈا اس پر ٹکا لیتے ہیں۔ (اصطلاحات پیشہ وراں، 149:5)
٨ - وہ پیداوار جو بیساکھ کے مہینے میں ہوخ جیسے: خربوزہ، تربوز وغیرہ۔ (فرہنگ آصفیہ، 466:1)
٩ - بیساکھ کا خربوزہ۔ (نوراللغات، 785:1)
صفت نسبتی ( واحد )
١ - بیساکھ سے منسوب، بیساکھ کا، بیساکھ میں اگنے والا۔
"تربوز دوقسم کے ہوتے ہیں بیساکھی، کتگھا۔"      ( ١٨٤٦ء، کھیت کرم، ٣٢ )
٢ - (بقال) بے وقوف، احمق، ناواقف۔ (نوراللغات، 785:1)