ناف

( ناف )
{ ناف }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی سے اردو میں اصل صورت و مفہوم کے ساتھ داخل ہوا نیز پہلوی زبان میں اسکا مترادف 'نافک' مستعمل تھا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٦٥٧ء کو "گلشن عشق" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
١ - جاندار کے جسم کے وسط میں پیٹ پر واقع آنول نال کا نشان، ٹنڈی، ٹنی۔
"ان میں سے موتیاں تمام کی تمام ناف سے اوپر کی ہیں۔"      ( ١٩٨٩ء، تاریخ پاکستان (قدیم دور)، ٢٣٠ )
٢ - [ قبالت ]  آنول نال، نال۔
"اگر کسی کے گھر میں لڑکا پیدا ہو تو اس کی آنول نال یعنی ناف رکھ چھوڑے۔"      ( ١٨٤٨ء، مفید الاجسام، ٨٠ )
٣ - [ مجازا ]  پہیے کے بیچوں بیچ وہ چھوٹا سا خالی گھیرا جس میں دھرا رہتا ہے، نابھی، گول گڑھا۔
"اگر آپ اپنی سائیکل کا پہیہ گھمائیں تو اس کی تیلیاں پہیے کےگھیرے کے قریب دھندلی نظر آئیں گی لیکن آپ ان کو ناف کے قریب اب بھی دیکھ سکتے ہیں کیونکہ وہاں وہ اتنی تیزی سے نہیں گھومتیں۔"      ( ١٩٧٠ء، زعمائے سائنس، ٩٩ )
٤ - [ مجازا ]  کسی چیز کا وسط، درمیان، بیچوں بیچ، مرکز۔
"بمبئی سے کلکتہ کو اور بمبئی سے ناگپور کو جو ریلیں گئی ہیں، گونڈوانہ کے ناف میں ہو کر گزرتی ہیں۔"      ( ١٩١٣ء، تمدنِ ہند، ١١٨ )
  • the navel;  nave;  middle or centre (of anything)