کھوسٹ

( کھُوسَٹ )
{ کھُو + سَٹ }
( سنسکرت )

تفصیلات


کَوشک  کھُوسَٹ

سنسکرت الاصل لفظ 'کَوشک' سے اردو میں ماخوذ 'کھوسٹ' بطور صفت نیز بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٨١٨ء کو "کلیاتِ انشا" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - بہت بوڑھا، بوڑھا پھوس، کہن سال، بہت ضعیف۔
"وہ وقت بھی قیامت کا ہوتا ہے جب ایک بوڑھا کھوسٹ کسی دویزہ کے گلے کا ہار بن جاتا ہے۔"    ( ١٩٨٢ء، پٹھانوں کے رسم و رواج، ١١٩ )
٢ - بہت بوڑھی، کہن سال، بہت ضعیف (عورت)
"ہاں یہ کیا کہ پہلے ایک کھوسٹ دائی کو بلوا لیا۔"    ( ١٩٢٧ء، فرحت، مضامین، ١٢:٧ )
٣ - بہت پرانی، فَرسودہ۔
"دقیانوسی کھوسٹ باتیں مجھے پسند نہیں۔"      ( ١٩٨٧ء، پھول پتھر، ٣٢٩ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - بہت بوڑھا آدمی، پِیرِ فرتوت، بہت نحیف و نزار بوڑھا۔
"ایک ان ہی کی طرح کے کھوسٹ اُن کے کمرے کے پروانہ وار چکر لگاتے تھے۔"    ( ١٩٦٤ء، آبلہ پا، ٢١ )
٢ - آزمودہ کار بوڑھا، گھاگ۔
"یہ ایسا حسین و کامیاب جال ہے جس سے بڑے سے بڑا کھوسٹ بھی نکل کر نہیں جاسکتا۔"    ( ١٩٨٤ء، قلمرو، ١٣٦ )
٣ - الو، چغد، بوم۔
"ان کی آواز کو بدشگونی قرار دیا ہے مثلاً الّو، کھوسٹ، کوا وغیرہ۔"      ( ١٩٥٤ء، حیواناتِ قرآنی، ١١٠ )
  • a decrepit old man;  a worthless fellow;  an owl.