ناتا

( ناتا )
{ نا + تا }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت سے اردو میں داخل ہوا اور عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٧٣٢ء کو "کربل کتھا" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : ناتے [نا + تے]
جمع   : ناتے [نا + تے]
جمع غیر ندائی   : ناتوں [نا + توں (و مجہول)]
١ - رشتہ، خونی، و نسلی تعلق، سسرالی یا سمدھیانے کا رشتہ۔
"اس کو میرے بچن سے شانت نہ ہو گی کیونکہ پتا اور پتر کا ناتا ہے۔"      ( ١٨٩٠ء، جوگ بششٹھ (ترجمہ)، ٤٨:١ )
٢ - علامہ، تعلق، واسطہ۔
 یہ اعتبار تو فکر و ہنر سے آتا ہے اس اعتبار کا نقد و نظر سے ناتا ہے      ( ١٩٩٤ء، ڈاکٹر فرمان فتح پوری؛ حیات و خدمات (تسلیم الہی زلفی)، ٣١٥:٣ )
٣ - رشتہ داری، رشتہ داروں کا طبقہ۔
"ایک جگہ ناتے میں جانے کو کہتا تھا وہیں چلا گیا ہو گا۔"      ( ١٩٥٨ء، میلہ گھومنی، ٨٠ )
٤ - سلسلہ، ذریعہ، توسل۔
"نہ وطن ایک، نہ مذہب ایک، لیکن محض انسانیت کے ناتے سے منوہر کے بڑے بھائی ہوتے تھے۔"      ( ١٩٥٤ء، شاید کہ بہار آئی، ١٤٦ )
٥ - [ (صرف و نحو) ]  اسمِ موصول؛ (ہندی منطق میں) لازم و ملزوم۔ (فرہنگِ آصفیہ)