بھونچال

( بَھونْچال )
{ بَھوں (و لین) + چال }
( ہندی )

تفصیلات


ہندی زبان سے ماخوذ اسم 'بھوں' کے ساتھ ہندی اسم 'چال' لگانے سے بنا۔ اردو میں بطور عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٧١٨ء کو "دیوان آبرو" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - اندرون زمین کے پگھلے ہوئے مادوں کے ابخرے کھلنے کے باعث سطح زمین کا لرزنا، زلزلہ، بھو ڈول، بالن۔
 بجلی ہے یا بگولا بھونچال ہے کہ آندھی ٹھیکے پہ ہے پہنچتی، بچنوں کی ہے وہ باندھی      ( ١٩١١ء، کلیات اسماعیل میرٹھی، ١٠٠ )
٢ - [ مجازا ]  ہنگامہ، ہل چل، انقلاب۔
"کیا شریر لڑکا ہے! اس بیچارے کے بدن میں دم نہیں اور یہ دیکھو گود میں لیٹا کیا بھونچال لا رہا ہے۔"      ( ١٩١٤ء، راج دلاری، ١٦٦ )