باتوں کا جمع خرچ

( باتوں کا جَمْع خَرْچ )
{ با + توں (واؤ مجہول) + کا + جَمْع + خَرْچ }

تفصیلات


سنسکرت سے ماخوذ اسم بات کی جمع 'باتوں' اور کلمہ اضافت 'کا' اور عربی سے ماخوذ اس 'جمع' اور فارسی سے ماخوذ اسم 'خرچ' سے مل کر مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٨٨٠ء میں 'آب حیات" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر )
١ - خالی باتیں، لفاظی (جس کا کوئ خاص مفہوم یا مقصد نہ ہو)۔
 کام آئے گا عمل سے عقیدہ کتاب کا باتوں کا جمع خرچ نہیں دن حساب کا      ( ١٩٦٥ء، اطہر، گلدستۂ اطہر، ٤١:٢ )