باتوں کا تار

( باتوں کا تار )
{ با + توں (واؤ مجہول) + کا + تار }

تفصیلات


سنسکرت سے ماخوذ اسم 'بات' کی جمع 'باتوں' اور فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'تار' کے درمیان کلمۂ اضافت 'کا' لگنے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٨٣٦ء میں 'ریاض البحر" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - باتوں کا سلسلہ، بک بک (باندھا، ٹوٹنا وغیرہ کے ساتھ مستعمل)۔
 تار باتوں کا بندھا جب خوش گلوکی بزم میں نامہ بر بھی مست ہو کر رقص فرمانے لگا۔      ( ١٩٢١ء، غزلیات شبیر(شبیر خان)، ١٤ )