جوڑا

( جوڑا )
{ جو (و مجہول) + ڑا }
( سنسکرت )

تفصیلات


جوڑ  جوڑا

سنسکرت سے ماخوذ اسم 'جوڑ' کے ساتھ 'ا' بطور لاحقۂ نسبت لگانے سے 'جوڑا' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہہوتا ہے۔ ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : جوڑی [جو (و مجہول) + ڑی]
واحد غیر ندائی   : جوڑے [جو (واؤ مجہول) + ڑے]
جمع   : جوڑے [جو (واؤ مجہول) + ڑے]
جمع غیر ندائی   : جوڑوں [جو (و مجہول) + ڑوں (و مجہول)]
١ - دو چیزوں یا افراد کا جوڑ یا میل جو یکساں یا مختلف ہوں، جفت۔
 رکھے اللہ آپ کا گاندھی کا جوڑ ابر قرار آپ کے ہوں خان ساماں اور ان کے ہوں کہار      ( ١٩٢١ء، اکبر، گاندھی نامہ، ٤٩ )
٢ - میاں بیوی، نر و مادہ یا ان میں سے کوئی ایک زوج۔
"اب گہما گہمی میں ہمارے متصل ایک مختلف وضع کا سفید فام جوڑا قدرے توقف کے لیے کھڑا ہو گیا تھا۔"      ( ١٩٨٤ء، ماہ نو، فروری، ٣٦ )
٣ - دونوں پیروں کے جوتے یا موزے۔
 حنا کا رنگ بھی ہو بار جس نازک طبیعت پر بھلا کیوں کروہ پہنے پاؤں میں جراب کا جوڑا      ( ١٨٤٦ء، آتش، کلیات، ٢٧ )
٤ - [ عورت ]  دونوں ہاتھوں کی یکساں تعداد میں چوڑیاں۔
"کپڑوں کا جوڑا اور چوڑی کا جوڑا بھی اس میں ہوتا ہے۔"      ( ١٩٦٩ء، اردو نامہ، کراچی، ٣١:٣٣ )
٥ - پوری پوشاک (اس میں دو عددی ہی کی قید نہیں بلکہ شلوار قمیض یا کرتے پاجامے کے علاوہ بعض اوقات ٹوپی پگڑی یا دوپٹہ اور جوتا تک شامل ہوتا ہے)، لباس، خلعت۔
 نزاکت پر ستم ہے ان کا جوڑا اس قدر بھاری دوپٹہ ہے مصیبت پائچہ مشکل سے اٹھتا ہے    ( ١٩٢١ء، اکبر، کلیات، ٧٥:٢ )
٦ - وہ لباس جو عروس کے واسطے بھیجا جاتا ہے۔
"جوڑے اور چڑھاوے کا حساب کر رہے تھے اور نکاح کرتے ہیں۔"    ( ١٩١٩ء، شب زندگی، ١٢٥:١٠ )
٧ - نظیر، ثانی، جواب۔
 کہوں کیا اوس کی میں باتیں غرض میرے تو جانب میں زمانے میں نہ ہو گا کوئی اس حراف کا جوڑا      ( ١٨١٨ء، انشا، کلیات، ٢١ )
٨ - [ کیماگری ]  چاندی یا سونا جس میں برابر کی ملاوٹ ہو، کھوٹا سونا چاندی۔
"لوگ جوڑا بھی بناتے ہیں . اصل سونے میں دوسری دھات مال کر وزن بڑھا لیا جاتا ہے۔"      ( ١٩٧٣ء، جہان دانش، ٥٠ )
٩ - [ موسیقی ]  تان پورے کے درمیان کے دوتار۔
"پہلے بیچ کے دونوں تار جنھیں جوڑا کہتے ہیں بنیادی سر کھوج میں ملائے جاتے ہیں۔"      ( ١٩٦١ء، ہماری موسیقی، ١٠٣ )