فلک پیما

( فَلَک پَیما )
{ فَلَک + پَے (ی لین) + ما }

تفصیلات


عربی زبان سے دخیل اسم 'فلک' کے بعد فارسی مصدر 'پیمودن' سے فعل امر 'پیما' بطور لاحقہ فاعلی لگانے سے مرکب توصیفی بنا جو اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے ١٩٣٥ء کو "رُوح کائنات" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - آسمان کو ناپنے والا، بہت بلندی تک پہنچنے والا۔
 خزاں کی گرم سانسوں سے جُھلس کر رہ گئے پتے فلک پیما درختوں کا بھی پندارِ نمو ٹوٹا      ( ١٩٨٦ء، غبارِ ماہ، ١٠٣ )