بات کی تاب

( بات کی تاب )
{ بات + کی + تاب }

تفصیلات


سنسکرت سے ماخوذ اسم 'بات' اور کلمہ اضافت کی 'کی' اور فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'تاب' سے مرکب ہے۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٨٣٦ء میں 'ریاض البحر" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
١ - بدزبانی کا تحمل، سخت کلامی کی برداشت۔
 تھی ہزبر اسداللہ کو کہاں بات کی تاب شیر جھپٹا تو گریزاں ہوا وہ خانہ خراب      ( ١٩٢٩ء، مرثیۂ فہیم (باقر علی خاں)، ١١ )