آج

( آج )
{ آج }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت میں 'آدیہ' اور فارسی میں 'امروز' ہے۔ اردو میں یہ لفظ سنسکرت سے آیا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦٠٩ء میں "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم ظرف زمان ( مذکر - واحد )
١ - موجودہ زمانہ، عصر حاضر (بیشتر حرف جار یا ربط کے ساتھ)۔
"حضرت نے تمام آج کی خبر بولے۔"      ( ١٥٠٠ء، معراج العاشقین، ٢٦ )
٢ - [ وقت ]  موجودہ دن، روز جو گزر رہا ہے، ساعت رواں (بیشتر حروف جار یا الف کے ساتھ)
 کلائی کا ہے یہ عالم کہ بس صفائی ہے گلے میں شمع کے دیکھا ہے آج تک ناسور      ( ١٨٦١ء، کلیات اختر، واجد علی شاہ، ٧ )
متعلق فعل
١ - موجودہ دِن میں طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کے دوران۔
 کوفے میں عید قتل امام زمن ہے آج غل ہے ورود عترت خیبر شکن ہے آج      ( ١٩١٢ء، شمیم، مرثیہ (ق)، ١ )
٢ - اس دم، اس وقت، اس گھڑی۔
"یہ تیری بہو جی کہاں ہے آج?"      ( ١٩١٤ء، راج دلاری، ٤ )
٣ - آج کل، ان دنوں، زمانہ حال میں۔
"جیسی جانفشانی سے اس نے بھائی کی اولاد کو پالا آج کوئی اپنے پیٹ کی اولاد نہ پالے گا۔"      ( ١٩٠٨ء، صبح زندگی، ١٦٠ )
٤ - جیتے جی، حین حیات میں (امیر اللغات، 64:1، نوراللغات، 73:1)
٥ - [ وقت - مجازا ]  فوراً، فی الفور (فرہنگ آصفیہ، 115:1)
  • اِمْرَوز
١ - آج کل کا بتانا
ٹال مٹول کرنا۔ آج کل کا ہے کو بتلائے ہو گستاخی معاف راستی یہ ہے کہ وعدے ہیں تمھارے سب خلاف      ( ١٨١٠ء، میر، کلیات، ١٩٥ )
٢ - آج کل کرنا
ٹال مٹول کرنا، حیلے حوالے بتانا۔ گزری تمام عمر ہی وعدے میں صبح و شام دیکھوں کہاں تلک کہ ابھی آج کل کرے      ( ١٧٨٢ء، دیوان عیش، مرزا علی عیش، ٤٧ )
٣ - آج کی کل پر دھرنا
آج کی بات کل پر ٹالنا، ٹال مٹول کرنا۔ ہوئی خاموش وہ رشک صنوبر دھری پھر آج کی سلطاں نے کل پر      ( ١٨٦١ء، الف لیلہ نومنظوم، شایاں، ٣٨١:٢ )
٤ - آج سے کل کرنا
دیر لگانا، ٹالنا۔"آج سے کل کی، تو مزدوری کاٹ لی جائے گی۔"      ( ١٩٦١ء، بابائے اردو، لغت کبیر، ١٤٧:١ )
٥ - آج کا کام کل پر اُٹھا رکھنا / ٹالنا / چھوڑنا / ڈالنا / رکھنا
کام میں کاہلی، کرنا، ٹال مٹول کرنا۔ دلا منظور ہے توبہ تو پھر اس میں توقف کیا جو عاقل ہیں نہیں رکھتے ہیں وہ کام آج کا کل پر      ( ١٨٧٠ء، دیوان اسیر، ١٧٣:٣ )
١ - آج کا بچھو کل کا سانپ
جو اب تھوڑا ضرر پہنچا سکتا ہے وہ آیندہ زیادہ ضرر بھی پہنچا سکتا ہے۔"یہ بچو میاں نہیں بچھو میاں ہے، یہ باپ سے زیادہ قابو یافتہ ہے اور بڑا ہی خودسر بس سمجھ لو کہ آج کا بچھو کل کا سانپ ہے۔"      ( ١٩٦٣ء، چڑھتا سورج، سہ ماہی، اردونامہ، کراچی، ٢٨:١٢ )
٢ - آج کے تھپے آج ہی نہیں جلتے
عمل کی پاداش میں وقت لگتا ہے کسی فعل کی سزا ہاتھ کے ہاتھ نہیں ملتی۔"خیر جاتا کہاں ہے آج کے تھپے آج ہی نہیں جلا کرتے۔"      ( ١٩٤٣ء، دلی کی چند عجیب ہستیاں، ١٠٤ )
جو کام آہستہ آہستہ ہو سکتا ہے وہ فوراً نہیں ہو سکتا، جلد بازی سے کام نہیں نکلتا۔ (نوراللغات، ٧٦:١)
٣ - آج گئے کل آئے
زیادہ وقت نہیں لگا یا نہیں لگتا، چند روز کی بات ہے، جلد واپس آنے کے موقع پر مستعمل۔ حج کو جاءو کہ زیارت کو تردد کیا ہے زندگی شرط ہے بحر آج گئے کل آئے      ( ١٨٣٦ء، ریاض البحر، ٢٦٣ )
٤ - آج مرا (-مرے / موا / موئے) کل دوسرا دن
زندگی ناقابل اعتبار اور نائیدار ہے، عمر کا کیا بھروسہ۔"اب رہے بھائی صاحب تو ان کا کیا ہے، قبر میں پاءوں لٹکائے بیٹھے ہیں آج مرے کل دوسرا دن۔"      ( ١٩٤٧ء، فرحت، مضامین، ٤٠:٦ )
٥ - آج ہے سو (وہ) کل نہیں
زندگی ناقابل اعتبار ہے۔ زندگی ہے آدمی کی بحر تن میں جوں حباب دم غنیمت جان تاباں آج ہے سو کل نہیں      ( ١٧٤٨ء، تابان، دیوان، ٤٠ )
٦ - آج برس کے پھر نہ برسوں (گا)
مینھ کی جھڑی لگی ہے، برابر برسے جا رہا ہے۔"مجھے امین آباد جانا ضروری ہے اور پانی کہتا ہے کہ آج برس کے پھر نہ برسوں گا۔"      ( ١٩٥٨ء، مہذب اللغات، ١٨:٢ )
٧ - آج تک پڑے ہینگ ہگتے (ہگ رہے) ہیں
اپنے کیے کی سزا بھگت رہے ہیں۔"جوانی میں خوب خوب مزے کیے تھے جس کے بدلے میں آج تک پڑے ہینگ ہگ رہے ہیں۔"      ( ١٩٥٨ء، مہذب اللغات، ١٨:٢ )
٨ - آج زبان کھلی ہے کل بند ہے
زندگی کا اعتبار نہیں ابھی بھلے چنگے تھے ابھی چل بسے (عبرت دلانے، زندگی پر بھروسا نہ کرنے اور صداقت و ایمانداری کا یقین دلانے کے محل پر مستعمل)۔ راست ہے ٹک بولیو اون کی ہی سوگند ہے آج کھلی ہے زباں کل کے تئیں بند ہے      ( ١٧٨٠ء، سودا (امیراللغات، ٦٤:١) )