جھڑنا

( جَھڑْنا )
{ جَھڑ + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


جھڑ  جَھڑْنا

سنسکرت سے ماخوذ اسم 'جھڑ' کے ساتھ 'نا' بطور لاحقۂ مصدر لگانے سے 'جھڑنا' بنا۔ اردو میں بطور فعل مستعمل ہے۔ ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتاہے۔

فعل لازم
١ - گرنا، اوپر سے نیچے آنا یا بہنا، دور ہونا، الگ ہونا، جدا ہونا۔
"اس کا ایک جھڑا ہوا دانت سوروں کے چارے کی ناند میں ڈال دیا تھا۔"      ( ١٩٦٥ء، شاخ زریں، ٨٦:١ )
٢ - گھلنا، پگھلنا، گٹنا، تحلیل ہونا۔
 اب نہیں تاب زباں کو کہ میں خاموش رہوں کب تلک شمع نمط غم سے میں رو رو کے جھڑوں      ( ١٧٨٠ء، سودا (شعلہ جوالہ، ٤٩٦:٢) )
٣ - بچت ہونا، فائدہ ہونا۔
"جس دھندے میں چار پیسے جھڑے نظر آئیں گے وہی کریں گے۔"      ( ١٩٢٨ء، پس پردہ، ١٣٥ )
٤ - بجنا، (نوبت وغیر پر) ٹکور پڑنا۔
"دیکھو طنبورہ جھڑ رہا ہے۔"      ( ١٩٠١ء، آفتاب شجاعت، ١٣٥:٤ )
٥ - اتزال ہونا، منی نکلنا، منی خارج ہونا۔
 کہنا سن لیتا اگر استاد کا یوں نہ جھڑ جاتا ذکر فولاد کا      ( ١٩٣٨ء، کلیات عریاں، ١٣ )
٦ - نشہ یاخمار اتر جانا، مستی جاتی رہنا، غرور مٹ جانا۔
 مستی اس کی ساری اب جھڑ جاے گی دھو ساری گلیوں میں پڑجائے گی      ( ١٨١٠ء، میر، کلیات، ١٠٢٣ )
٧ - کند یا کھٹل ہو جانا، بے کار ہو جانا۔
 اس کو آسیب نہیں صورت شمشیر قضا نہ جھڑے وہ نہ مڑے وہ نہ پڑے اس میں بل      ( ١٧٨٠ء، سودا، کلیات، ٢٣٤ )
٨ - دم ہونا، منتر پڑھ کر پھونکا جانا، عمل پڑھ کر دم ہونا۔ (نوراللغات، جامع اللغات)