اسیر

( اَسِیْر )
{ اَسِیْر }
( عربی )

تفصیلات


اسر  اَسِیْر

عربی زبان سے اسم مشتق ہے ثلاثی مجرد کے باب سے اسم فاعل ہے اردو میں ١٥٠٣ء کو 'نوسرہار" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
تفضیلی حالت   : اَسِیروں [اَسی + روں (و مجہول)]
١ - قیدی، محبوس، گرفتار
'زلف خواجہ کا اسیر، دام اقبال میں کیونکر آ سکتا ہے۔"      ( ١٩١٣ء، مکاتیب اقبال، ٣٢٧:٢ )
٢ - [ مجازا ]  مبتلا۔
 دل تھا کبھی اسیر فریب وفائے یار ان کون ہے نگاہ کرم کا امیدوار      ( ١٩١٢ء، مطلع انوار، ٢١ )
  • bound
  • tied
  • made
  • captive