صفت ذاتی ( واحد )
١ - ایک بھی (شے)۔
"لونگ بوٹس سے لے کر سلیم شاہی تک کوئی قسم جوتی کی نہیں بچی تھی۔"
( ١٩٦٢ء، گنجیۂ گوہر، ٨٩ )
٢ - ایک بھی (شخص)
"جن لوگوں کے لیے یہ قالین بنا ہے ان میں سے کوئی بھی ہمارے ہاں نہیں آتا۔"
( ١٩٨٧ء، شہاب نامہ، ١٠٧١ )
٣ - نامعلوم یا معین شخص یا ذات، ایک (شخص یا وجود)۔
"کسی کو خبر بھی نہ ہوتی کوئی اسے زبردستی گھسیٹ رہا ہے۔"
( ١٩٨٧ء، روز کا قصّہ، ١٣٧ )
٤ - غیر معلوم یا نامعلوم یا غیر معین شے، بات یا امر، ایک (چیز یا بات وغیرہ)۔
اتنے میں نظر آیا طویل سایہ، کوئی پھر اک صدا کہ وہ دیکھو ادھر سے آیا کوئی
( ١٩٧٤ء، لوح دل، ٤٩ )
٥ - تخمیناً، اندازاً، تقریباً (مقدار یا تعداد کے لیے)۔
"ایک ڈھیری میں کوئی آٹھ من غلّہ ہوتا ہے۔"
( ١٩٨٧ء، شہاب نامہ، ٤٨٣ )
٦ - گویا کہ، یاکہ (بطور سوال)۔
ہزار رنگ دکھائے گا داغ داغِ جگر مری بہار نہ ٹھہری کوئی خزاں ٹھہری
( ١٨٧٨ء، گلزار داغ، ١٩٢ )
٧ - (استفہام انکاری کے لیے) کیا، کیا یہ ممکن ہے (یعنی نہیں)۔
"وہ جل کر بولی، تم میرے عاشق کب سے بن گئے? یہ بھی کوئی پوچھنے کی گل ہے، لالی نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔"
( ١٩٧٨ء، جانگلوس، ٣٤٦ )
٨ - [ کہاوت ] تعلق رکھنے والا، کوئی شناسا، یگانہ۔
"لالی نے پوچھا تیرے ما پیو نہیں ہیں? . فرش پر بیٹھتے ہوئے بولی اپنا تو کوئی بھی نہیں۔"
( ١٩٧٨ء، جانگلوس، ٢٧٠ )
٩ - (نفی کے لیے) کبھی نہیں، ہرگز نہیں (بطور اسفہام انکاری)۔
مٹتا ہے مَوت فرصتِ ہستی کا غم کوئی عمر عزیز صرفِ عبادت ہی کیوں نہ ہو
( ١٨٦٩ء، دیوان غالب، ١٩٤ )
١٠ - تھوڑا سا، کسی قدر، ذرا۔
دے رہا ہوں فریبِ ترک وفا کاش یہ تو اثر کرے کوئی
( ١٩٤٧ء، دیوان سہا (قدیم) ١٢٢ )
١١ - کسی طرح کا۔
"ابّا میاں تو جیسے بہرے ہو گئے تھے کہ کسی کی چیخ و پکار کا ان پر کوئی اثر نہ ہوتا تھا۔"
( ١٩٨٧ء، روز کا قصّہ، ١٩٩ )
١٢ - کچھ بھی، بالکل۔
"میرے باپ کو مخالف پارٹی نے اٹھا کر نہر میں پھینک دیا تھا، اب تک اس کا کوئی سراغ نہیں ملا۔"
( ١٩٨٧ء، شہاب نامہ، ٤٦٥ )
١٣ - تحقیر کے لیے۔
"ممکن ہے رنگ زاہدہ جسا ہو مگر زاہدہ کی بھی کوئی شکل و صورت ہے لمبی دبلی۔"
( ١٩٨٢ء، پرایا گھر، ١٧٢ )
١٤ - کچھ، بعض (تعداد وغیرہ کے لیے)۔
"مقام تعبیر پر یہ لکڑیاں کوئی تو گاڑی جاتی جاتی ہیں کوئی چنی جاتی ہیں۔"
( ١٩٣٢ء، عالم حیوانی، ٥٤١ )
١٥ - کتنا، کس قدر، بڑا۔
جور سے باز آکے دیتے ہو تغافل کی سزا تم ستم ایجاد ہو کوئی ستم ایجاد ہو
( ١٩٥٠ء، ترانہ وحشت، ٧٠ )
١٦ - کسی (شخص، شے یا امر)۔
"کوئی دوسرے خاندان کی بہو آتی تو ایک ہی دن میں میکے جا بیٹھتی۔"
( ١٩٨٧ء، روز کا قصّہ، ١٨٦ )
١٧ - ہرگز۔
دوبارہ تو وہ کوئی مرتے نہیں کتے تو چہ مرنے کو ڈرتے نہیں
( ١٦٨٥ء، گنج مخفی (قدیم اردو، ١٦٦:١) )
١٨ - حیثیت یا حقیقت یا مرتبہ وغیرہ معلوم کرنے یا معین کرنے کے لیے۔
خدا کو بھی پسند آتا نہیں غرور و ناز اتنا نہ بولو گے کسی سے تم تو کیا کوئی خدا تم ہو
( ١٩١١ء، دیوان ظہیر دہلوی، (١٠٩:٢) )
١٩ - بہت، اس قدر، اتنا۔
ہمیں سو جراتیں ہو جائیں گی عرض تمنا کی کوئی آساں نہ سمجھوے کے دل بیگانہ ہو جانا
( ١٩٤٧ء، دیوان سہا، ٣٩ )
٢٠ - صرف، مشکل سے۔
"کوئی ایک منٹ بھی نہیں گزرا تھا کہ وہی پریزاد پھر آیا۔"
( ١٩٢٣ء، ساڑھے تین بار، ٨٣ )
٢١ - کچھ، چند، (وقت یا زمانے کی کمی ظاہر کرنے کے لیے)۔
"آنسوؤں کے پھول جھڑ رہے ہیں، کوئی دم کا یہ تماشا ہے، پھل جھڑی جل چکے گی۔"
( ١٩١٢ء، سی پارۂ دل، ٤٩:١ )
٢٢ - کچھ (رتبہ یا حیثیت کے لحاظ سے)، اہم (شخص یا شے)۔
سن کے وصف اس کی چشم کا نرگس رشک سے بولی میں نہ کوئی تھی
( ١٩٤٧ء، مضامین فرحت، ٢١٨:٦ )
٢٣ - شاذو نادر، خال خال۔
"کوئی ہو گا جو وہ حالت دیکھ کے رویا ہو گا۔"
( ١٩٢٩ء، نوراللغات، ٨٥٤:٣ )
٢٤ - (اظہار حیرت کے لیے) کیسا۔
یہ کوئی گھر ہے کہ عرش زمیں پر پیدا یہ کہ ہر درجہ ہے بیت اشرف ہفت اختر
( ١٨٧١ء، کلیات تسلیم، ١٤ )
٢٥ - بعض جیسے: مشہور کہاوت؛ آدمی آدمی اتنتر، کوئی ہیرا کوئی کنکر۔
"کوئی اس مچھلی کے گرد گھومتے رہے کوئی دوسری مچھلی کے گرد گھومنے لگے۔"
( ١٩٨١ء،سفر در سفر، ٣٢ )