کیوں

( کِیوُں )
{ کِیوُں (ی مخلوط) }
( پراکرت )

تفصیلات


پراکرت زبان سے ماخوذ ہے۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساسھ بطور حرف استفہام استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

حرف استفہام
١ - کس لیے، کس، واسطے۔
"بڑے تردد سے پوچھا یہ اتنی دبلی کیوں ہے۔"      ( ١٩٩٢ء، افکار، کراچی، جون، ٥٩ )
٢ - تخاطب یا استفسار کے موقع پر کیا بات ہے، کیا سبب ہے۔
"میں نے کہا کیوں تم افسردہ کیوں ہو۔"      ( ١٩١٦ء، سی پارۂ دل، ١٣٧:١ )
٣ - کیسے، کیونکر۔
 میں نہ دکھاؤں گر خواب تقدیر کے کیوں جہاں اپنی گردش پہ قائم رہے      ( ١٩٥٨ء، تارپیراہن، ١٧٦ )
٤ - اس لیے کہ، کیونکہ۔
 قصہ حسن و عشق میں چپ رہ کیوں یہ قصہ ہے عیش آپس کا      ( ١٨٧٩ء، دیوان عشق دہلوی (حکیم آغا جان) ٨١ )
٥ - (کیا خیال ہے کی جگہ)، یہ تو بتاؤ، ذرا غور کرو، انصاف سے کہو۔
 کیوں شرط وفا اسی کا ہے نام تم تو کرو ترک میں نبا ہوں      ( ١٩٠٧ء، کلیات اسراراللہ، ١٢٨ )
٦ - کیسا
"محمود ایاز . ایاز کوں پوچھے میں کیوں دستا ہوں ہورتوں کیوں دستا ہے۔"      ( ١٦٠٣ء، شرح تمہدات ہمدانی (ترجمہ) ٥٧ )
٧ - استفہام انکار کے موقع پر۔
 آگیا برسات کا موسم وہ اب کیوں آئیں گے اون کے ہاتھ آیا ہے عذر باد باراں آج کل      ( ١٩٦١ء، دیوان ناظم، ١٠٦ )
  • کِیُونکَر
  • کِس لِیے