جھپکنا

( جھَپَکْنا )
{ جھَپَک + نا }
( ہندی )

تفصیلات


جھپک  جھَپَکْنا

ہندی سے ماخوذ 'جھپک' کے ساتھ 'نا' بطور لاحقۂ مصدر لگا کر 'جھپکنا' بنا۔ اردو میں بطور فعل استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٧٤ء کو "تصویر جاناں" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - پلکوں کا نیچے اوپر ہونا، آنکھوں کا کھلنا بند ہونا۔
 آنکھ جھپکوں تو شرارے برسیں سانس کھینچوں تو رگ جاں چمکے      ( ١٩٧٢ء، دیوان ناصر کاظمی، ٤٧ )
٢ - (پنکھا وغیرہ) جھلنا۔ (پلیٹس)۔
٣ - شرمندہ ہونا، جھینپنا۔
 نظر آیا چاند پھیکا تو جھپک گئے ستارے شب ماہ بھی نہ چمکی جو تو نکلا جگمگا کر    ( ١٩٢١ء، اکبر، کلیات، ١٣٢:١ )
٤ - جھجکنا، مرعوب ہوتا، ڈرتا، خوف زدہ ہوتا۔
"فقہا اور محدثین جو فلسفہ اور منطق سے بالکل ناآشنا تھے. معتزلیوں سے ہمیشہ جھپکتے تھے۔"    ( ١٩١٤ء، شبلی، مقالات، ١٥:٥ )
٥ - حملہ کرنا، حملے کی غرض سے دوڑ پڑنا، اچانک حملہ آور ہو جانا، تیزی سے آگے بڑھنا، دوڑ کر جانا۔
"ایک بلبل کبھی شاخوں پر جھولتی، کبھی پانی کمی طرف جھپکتی، جیسے اپنا عکس دیکھ رہی ہو۔"      ( ١٩٧٣ء، ایک تھی جھیل، ٦ )
٦ - جھٹکنا، زور سے جنبش دینا۔
 دل خس و خاشاک کی صورت اٹکتا ہی رہا گو سرا دامن کو اپنے وہ جھپکتا ہی رہا      ( ١٨٠١ء، گلشن ہند، لطف (کلام بسمل) ٦٣ )