اشتمال

( اِشْتِمال )
{ اِش + تِمال }
( عربی )

تفصیلات


شمل  اِشْتِمال

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے باب افتعال سے مصدر اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے 'کلیات شیفتہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مذکر - واحد )
١ - شمول، شرکت، شامل ہونا۔
 ہو زباں پر ذکر حق اور نام حق ماسوا کا ہو نہ ہرگز اشتمال      ( ١٩١٠ء، کلام مہر، ٢، ٢٩١ )
٢ - مشترکہ ملکیت؛ مشترکہ ملکیت کا نظریہ۔
 مالک جو ہے خدا کی زمیں کا بلا شمول اب ڈر ہے اس گروہ کو بھی اشتمال کا      ( ١٩٤١ء، ماہنامہ مسافر، رئیس امروہوی، جنوری، ١٧ )
٣ - [ قانون ]  ایک سے زیادہ مدعی یا مدعا علیہ کا کسی مقدمے میں شامل ہونا۔
'نالش منجانب چند مدعیان میں تمام کے نام سوائے ایک کے بوجہ اشتمال بیجا کاٹ دیے گئے۔"      ( ١٩٢٤ء، ترجمہ ایکٹ نمبر ٩، ٣١٩، مجریہ ١٩٠٨ )
  • comprehension
  • containing