توبہ

( تَوبَہ )
{ تَو (و لین) + بَہ }
( عربی )

تفصیلات


تاب  تَوبَہ

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق کلمہ ہے جو اردو میں اپنے اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور اسم اور شاذ بطور حرف استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٦١١ء کو "کلیات قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

حرف فجائیہ ( مذکر )
١ - (کثرت و فراوانی کے موقع پر) بہت زیادہ، بے پناہ۔
"بیچاری اردو کی ایسی مٹی خراب ہونی شروع ہوئی کہ توبہ"      ( ١٩١٤ء، مقالاتِ شبلی، ٦٧:٢ )
٢ - ہرگز نہیں، زنہار کی جگہ۔
 حال دل تم سے کہیں گے تو سنو گے، توبہ اور منہ موڑ کے صادات سناؤ گے ہمیں      ( ١٧٩٨ء، دیوان سوز، ٢١٥ )
٣ - (نفرت، حیرت، عبرت تاسف یا ناپسندیدگی کے اظہار کے لیے) الامان، خدا بچائے، اللہ محفوظ رکھے، خدا نہ کرے۔
 فصل گل میں یہ فراوانی وحشت توبہ دامن گل کو بھی میں اپنا گریباں سمجھا      ( ١٩٤٧ء، نوائے دل، ٦٥ )
اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - (لفظاً) لوٹنا یا رجوع ہونا، (اصطلاحاً) گزشتہ گناہوں یا غلطیوں پر ندامت اور آءندہ اس قسم کی برائی یا گناہ نہ کرنے کا اقرار، کسی قول یا فعل (عموماً برا) سے باز رہنے کا عہد۔
 توبہ ہو کہ بدگماں میں نے کی خطا ضرور بھول چوک ہو تو ہو ہیں وہ باوفا ضرور      ( ١٩٢٥ء، شوق قدوائی، عالم خیال ٧ )
٢ - (ندامت کے ساتھ) طلب مغفرت، عفو خواہی، استغفار۔
"عبادت بغیر توبہ کے صحیح نہیں کیونکہ خدائے تعالٰی نے توبہ کو عبادت پر مقدم کیا ہے۔"      ( ١٩٢٤، تذکرۃ الاولیا (ترجمہ)، ١٨ )