کوتاہی

( کوتاہی )
{ کو (واؤ مجہول) + تا + ہی }
( فارسی )

تفصیلات


کوتاہ  کوتاہی

فارسی زبان سے ماخوذ صفت 'کوتاہ' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے 'کوتاہی' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٧٢ء کو "دیوانِ عبداللہ قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : کوتاہِیاں [کو (واؤ مجہول) + تا + ہِیاں]
جمع غیر ندائی   : کوتاہِیوں [کو (واؤ مجہول) + تا + ہِیوں (واؤ مجہول)]
١ - [ لفظا ]  کمی، خاصی، چھوٹا ہونا، (کنایۃً) اختصار۔
 اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی      ( ١٩٣٥ء، بال جبریل، ٨٣ )
٢ - توجہ میں کمی، غفلت، عدم توجہ، بے پروائی۔
"فرض کی ادائیگی میں کوتاہی اور غفلت برتی گئی۔"      ( ١٩٨١ء، قطب نما، ٦٠ )
٣ - دریغ، (توجہ میں) کمی۔
"وہ شخص میرے بھائی سے کہتا جاتا تھا کہ . کھانے میں کوتاہی مت کر کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ تو کس قدر بھوکا ہے۔"      ( ١٩٤٠ء، الف لیلہ و لیلہ، ٣٥٨:١ )
٤ - نارسائی، ناکامی۔
 سحر کی تیز رومی اور شبوں کی کوتاہی گز شتنی ہے جو دل پر تمام لکھیں گے      ( ١٩٨١ء، ملامتوں کے درمیان، ٤٣ )
٥ - ذہن کی پرواز یا فکر کی اڑان میں کمی، تقصیر۔
 ہماری کوتہیوں پر نظر نہ کر یا رب نہ دیکھ کردہ و ناکردہ مصطفٰیۖ کے لیے      ( ١٩٠٣ء، مجموعۂ نظم بے نظیر، ١٤١ )
٦ - عدم گنجائش، کمی، تنگی۔
"مکتب میں دیکھتی ہو جگہ کی کتنی کوتاہی ہے۔"      ( ١٨٧٣ء، بنات النعش، ١٥ )
٧ - پست ہمتی، کم حوصلگی، بزدلی۔
 کیونکر ہو بھلا مادرِ مضطر کو تسلی متعتل میں یہ کوتاہیاں گھر میں یہ تعلّی      ( ١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ١٢٣:١ )
٨ - نقصان، قلت، خامی، کسر۔
"مذکورہ بالا کوتاہیوں کے ہوتے ہوئے پہاڑوں پر وسیع پیمانہ پر کاشتکاری محال ہوتی ہے۔"      ( ١٩٧٥ء، معاشی و تجارتی جغرافیہ، ٢٣ )
٩ - کمزوری، خوابی، نقص، برائی، عیب۔
"ایک دوسرے نے اپنی . لڑکے لڑکی کی کوتاہیاں اچھی طرح واضح کر دی تھیں۔"      ( ١٩٨٢ء، مری زندگی فسانہ، ١٢٤ )