غریبی

( غَرِیبی )
{ غَرِی + بی }
( عربی )

تفصیلات


غرب  غَرِیب  غَرِیبی

عربی زبان سے مشتق صفت 'غریب' کے آخر پر 'ی' لاحقہ کیفیت لگانے سے بنا اور اردو میں اپنے اصل معنوں اور ماخوذ ساخت کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٦٢٥ء کو "سیف الملوک و بدیع الجمال" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - مفلسی، ناداری، محتاجی۔
"عوام کی غربت، مفلسی، محتاجی، لاچارگی اور غریبی کے دکھ جھلکتے ہیں۔"      ( ١٩٨٦ء، تاریخ اور آگہی، ٨٢ )
٢ - مسافرت، وطن سے دوری، پردیس۔
 سر پر ہجومِ دردِ غریبی سے ڈالئے وہ ایک مشتِ خاک کہ صحرا کہیں جسے      ( ١٨٦٨ء، غالب، دیوان، ٢١٨ )
٣ - عاجزی، انکسار۔
"بہت ملایمت اور غریبی سے بولا، اے ماہی گیر ایسا کام نہ کیجیو۔"      ( ١٨٤٢ء، الف لیلہ، عبدالکریم، ٢٧:١ )
٤ - سادگی، کھراپن، معصومیت۔
"حرم کی غریبی پر دائی کا دل موم سا پگھل گیا اور رحم آیا۔"      ( ١٨٤٥ء، نغمۂ عندلیب، ١٨ )
  • a state of being a foreigner
  • foriegnness;  humility
  • wretchedness