تنکا

( تِنْکا )
{ تِن + کا }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان سے ماخوذ کلمہ ہے جو اردو میں اپنے اصل معنی اور بدلی ہوئی ساخت کے ساتھ عربی رسم الخط میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے تحریراً سب سے پہلے ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : تِنْکے [تِن + کے]
جمع   : تِنْکے [تِن + کے]
جمع غیر ندائی   : تِنْکوں [تِن + کوں (و مجہول)]
١ - گھاس وغیرہ کا ٹکڑا جو پتلا اور لمبا ہوتا ہے، پرال، ڈانٹھی۔
"کیا ممکن جو گھاس کی ایک پتی بھی زرد ہو یا باغ میں کہیں ایک تنکا تک نظر آجائے۔"      ( ١٩١٤ء، راج دلاری، ٣٦ )
٢ - وہ چھوٹی سی سینک جو عورتیں ناک میں لونگ یا نتھ کی جگہ ڈال لیتی ہیں۔
 ناک میں نیم کا فقط تنکا شوقی چالاکی مقتضاسِن کا      ( ١٨٦١ء، بہار عشق (مقالات ماجد، ١٤٩ )
٣ - [ مجازا ]  حقیر اور بے حقیقت شے۔
"اسکی ازلی و ابدی طاقت گھاس کے ایک تنکے کو سدا بہار پھول کرتی ہے۔"      ( ١٩٢٧ء، گلدستۂ عید، ٦٦ )
٤ - ذرا سی چیز، کوئی چیز، کم سے کم قیمت کی چیز۔
"میرا گھر لوٹا گیا ایک تنکا نہیں بچا۔"      ( ١٩٣٥ء، بیگمان شایانِ اودھ، ٥٠ )
٥ - [ کنایۃ ]  دُبلا پتلا، لاغر، ہلکا۔
 ہوا ہوں عشق میں یہ اس کے سُوکھ کر تنکا کہ دست و پا ہیں مرے تیلیاں کمر تنکا      ( ١٩٣٤ء، کلام رونق، ٩٩ )
٦ - کوڑا کرکٹ، گھاس پھونْس۔ (نور اللغات؛ جامع اللغات)