مجذوب

( مَجْذُوب )
{ مَج + ذُوب }
( عربی )

تفصیلات


جذب  مَجْذُوب

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
جمع استثنائی   : مَجْذُوبِین [مَج + ذُو + بِین]
جمع غیر ندائی   : مَجْذُوبوں [مَج + ذُو + بوں (و مجہول)]
١ - [ لفظا ]  کھینچا گیا، جذب کیا گیا؛ مراد: محبت الٰہی میں مدہوش، یادالٰہی میں غرق، صاحب جذب؛ (خدا کے عشق میں) مست و بے خبر، حواس گم کردہ، خدا کی یاد میں ایسا ڈوبا ہوا کہ اسے دنیا کی باتوں کا ہوش باقی نہیں رہے اسی لیے محض دنیا والوں کے نزدیک مخبوط الحواس، فضل و توفیق الٰہی کی جانب کھینچا ہوا۔
"وہی ایک شخص ہیرا تھا شاید سچا فقیر مجذوب۔"      ( ١٩٩٠ء، چاندنی بیگم، ١٣٥ )
٢ - فقیروں کی ایک قسم یہ لوگ اکثر بے سرو یا باتیں کیا کرتے ہیں۔
"بعض مجذوب اپنی ترنگ میں خدا جانے کیا کیا کہہ جاتے ہیں۔"      ( ١٩٨٥ء، انشائیہ اردو میں ادب میں، ٣٣ )
٣ - مجنوں، پاگل، دیوانہ، سٹری۔
"مگر ہم جانتے ہیں کہ آج مملکت پاکستان کو مجنونوں اور مجذبوں کی ضرورت نہیں ہے۔"      ( ١٩٨٠ء، مقالات (کل پاکستان اہل قلم کانفرس)، ٥٢ )
٤ - جس کو کشش سے کھینچا جائے، کھینچا گیا، جذب کردہ۔
"آنکھوں کی خرابی کے لیے آنکھوں پر مجذوب دوا کا پلاسٹر چپکا دیا جائے۔"      ( ١٩٨٤ء، جنگ، کراچی، ٢ ستمبر، VII )
٥ - [ تصوف ]  جو ایک شے کی ماہیت میں گم ہووے اور ترقی اور نہ کر ے اور اس کی لذت میں محو ہووے اور بعض صوفیہ کہتے ہیں کہ مجذوب وہ سالک ہے جس کو حق تعالٰی نے اپنے نفس کے لیے پیدا کیا ہے اور پسند کیا اس کو اپنی انسیت کے لیے اور پاک کیا اس کو کدوراتِ غیرت سے، پس جمع کیا اس نے جمیع نعماد اور مواہب الٰہیہ کو اور فائز ہوا وہ تمامی مقامات پر بلا کلفت و تعب مجاہدات کے۔ (مصباح التعرف)۔
٦ - دماغی صلاحیتوں سے ایک خاص درجۂ ادراک تک پہنچا ہو لیکن جس کی حقیقت کبریٰ تک رسائی نہ ہو۔
 اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگی اس زمانے میں تو اقبال اس کو سمجھاتا مقام کبریا کیا ہے      ( ١٩٣٥ء، بال جبریل، ٨٢ )