موزوں

( مَوزُوں )
{ مو (و لین) + زُوں }
( عربی )

تفصیلات


وزن  مَوزُوں

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے 'مفعول' کے رزن پر مشتق کیے گئے کلمہ 'موزون' کی مُفَرِّس شکل ہے جو اردو میں اپنے اصل معنی اور فارسی ساخت کے ساتھ بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٦٤٩ء کو "خاور نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
تقابلی حالت   : مَوزُوں تَر [مَو (و لین) + زوں + تَر]
تفضیلی حالت   : مَوزُوں تَرِین [مَو (و لین) + زُوں + تَرِین]
١ - تُلا ہوا، وہ چیز جو وزن ہو کے فروخت ہوتی ہے۔
"موزوں: (Weighed) قابِل وزن شے۔"      ( ١٩٩١ء، کشاف اصطلاحاتِ قانون (اسلامی)، ٢٥٦ )
٢ - نیا تُلا، وزن کے مطابق، پھبتا ہوا، لائقِ حال، توقع کے لحاظ سے مناسب، درست، جیسا یا جتنا چاہیے ویسا، اُتنا؛ متعدل، افراط و تفریط سے پاک۔
"قد مبارک موزوں و میانہ اوسط ب مضمون . کشادہ پیشانی، پیوستہ ابرو۔"      ( ١٩٩١ء، تحقیقی زوایے، ١٢٣ )
٣ - [ مجازا ]  مقبول، پسندیدہ۔
"حضور احمد سلیم کی ذات اپنی گوناگوں صفات کی بنا پر بڑی موزوں تھی۔"      ( ١٩٩٦ء، حضور احمد سلیم ایک مطالعہ، ٢٨ )
٤ - [ عروض ]  جو تقطیع میں ٹھیک ہو، بحرو اوزانِ عروضی کیمطابق درست، بحر کے وزن کے مطابق، منظوم (شعر، بحر وغیرہ)۔
"آخری دو شعر اسی لینن کے بالکل موزوں اور مناسبِ حال اقوال ہیں۔"
٥ - جسے شاعری اور وزن شعر سے مناسبت اور لگاؤ۔
"عشرت نے کہا: طبیعت موزوں معلوم ہوتی ہے۔"      ( ١٩٥٤ء، شاید کہ بہار آئی، ٩٤ )