تاڑنا[1]

( تاڑْنا[1] )
{ تاڑ + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


ترکیہ  تاڑ  تاڑْنا

سنسکرت سے ماخوذ اسم (تاڑ) کے ساتھ اردو قاعدے کے تحت 'نا' بطور لاحقہ مصدر لگانے سے بنا۔ اردو میں بطور فعل استعمال ہوتا ہے ١٧٣٢ء کو "دیوان اَبرو (قلمی)" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل متعدی
١ - تاک جھانک کرنا، دیکھنا، سمجھنا، بات کی تہ کو پہنچ جانا۔
"سنتے ہی تاڑ گئی کہ یہ صاحب زادی نے گل کھلایا ہے۔"      ( ١٩٠٨ء، "صبح زندگی" ٧٨ )
٢ - تولنا، اندازہ کرنا، آنکنا۔
"سیر بھر گھی ہے، تاڑنے سے کیا فائدہ"      ( ١٩٢٦ء، "نور اللغات" )
٣ - کسی علامت کے بغیر پہچاننا، بھانپنا۔
"یقین مانو میں تمہارے اس قسم کے اظہار سے کچھ تاڑتا ضرور ہوں مگر غور کرنے پر اس کو اپنے دماغ سے نکال."      ( ١٩٥٢ء، سلطان حیدر جوش، ہوائی، )
٤ - ایک پتھر کو دوسرے پتھر سے ہم وزن کرنا (نور اللغات)