اکا

( اِکّا )
{ اِک + کا }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان سے اردو میں ماخوذ صفت عددی 'ایک' کے ساتھ اردو قاعدے کے تحت لاحقۂ نسبت یا اضافت 'کا' بڑھانے سے 'ایکا' بنا۔ 'ایکا' کی تخفیف 'اکا' اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٨٣٦ء کو "ریاض البحر" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : اِکّے [اِک + کے]
جمع   : اِکّے [اِک + ے]
١ - دو پہیوں اور ایک گھوڑے کی گاڑی جو تانگے سے کسی قدر اونچی اور کم چوڑی ہوتی ہے، یکّہ۔
"بیسیوں شاہزادے اکا ہنکاتے پھلکیاں بیچ کے پیٹ پالتے ہیں۔"      ( ١٩٣٠ء، اودھ پیچ، لکھنؤ ١٥، ١٠:٤ )
٢ - ایک خاص قسم کا بازو بند جس پر (بخلاف جوشن یا نونگے کے) صرف ایک ہی بڑا نگ جڑا ہوتا ہے (نگ کے نیچے ایک ڈبیا بنی ہوتی ہے جس میں عطر کی پھریری رکھ لیتے ہیں)۔
"زیوروں میں. اکے، جوشن، بجلیاں. سب متروک۔"      ( ١٩٣٥ء، اودھ پنچ، لکھنؤ، ٢٠، ٣:١٤ )
٣ - ایک بتی کا شمعدان، ایک کنول کی بیٹھک۔
 شعر سانچے میں ڈھلے ہیں نور کے بزم میں اکے ہیں روشن طور کے      ( ١٩١٨ء، سحر (سراج میر خان)، ٩٥ )
٤ - ایک وزنی اور لمبا مگدر جس کو پہلوان زور یا قوت بڑھانے کے لیے اٹھاتے اور گھماتے ہیں۔
 ورزش تجھے دکھانے کو پیر فلک نے رات رستم کے زور کرنے کا اکا اٹھا لیا      ( ١٨٦٧ء، رشک (مطالب غرّا، ٦) )
٥ - (مغل شاہی دور میں) ہندوستانی فوج کا وہ عہدہ دار جو اپنی متعلقہ پلٹن کو پہرا چوکی تقسیم کرنے پر متعین ہوتا تھا، جمعدار۔
 بلبل جو ہے نقیب تو شمشاد چوبدار اکا صبا کا بانٹتا پھرتا ہے نوکری      ( ١٨٧٣ء، کلیات قدر، ٤٨ )
٦ - (ہندستان کی قدیم ریاستوں اور رجواڑوں کا) اعزاز وظیفہ پانے والا رئیس زادہ۔
 معافی کے فرمان جاری ہوئے جوا کے تھے باون ہزاری ہوئے      ( ١٨٥٧ء، سحر (امان علی)، ریاض سحر، ١٩٥ )
٧ - تاش اور گنجفے کا ایک پتا جس پر اس بازی کے رنگ کا ایک نشان ہوتا ہے جس سے وہ بازی موسوم ہوتی ہے (یہ بازی کا سب سے بڑا میر شمار کیا جاتا ہے)۔
 کھیلنے کو گنجفہ بیٹھا جو وہ سفاک خلق چنگ کے اکا وہیں چنگیز خاں ہو جائیگا      ( ١٩٤٦ء، دیوان مہر، (آغا علی)، ٤٧ )