بچھڑا

( بَچھْڑا )
{ بَچھ + ڑا }
( سنسکرت )

تفصیلات


وتس+ر+ک  بَچھْڑا

سنسکرت زبان کے اصل تفظ 'وتس + ر + ر+ ک' سے ماخوذ 'بچھڑا' اردو زبان میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٤٥ء کو "احوال الانبیا" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
واحد غیر ندائی   : بَچھْڑے [بَچھ + ڑے]
جمع   : بَچھْڑے [بَچھ + ڑے]
جمع غیر ندائی   : بَچھْڑوں [بَچھ + ڑوں (و مجہول)]
١ - نوجوان لا ابالی لڑکا۔
"گھر میں بچھڑا تھا مکتب میں بچھڑے کا بیل ہوا۔"      ( ١٨٨٥ء، فسانۂ مبتلا، ٢٦ )
٢ - نادان، ناسمجھ۔
"آدمی کے بچھڑوں پر پہلے پہل والدین کی حکومت کا ہلکا جوا رکھا جاتا ہے۔"      ( ١٩٠٦ء، الحقوق و الفرائض، ٢، ١٨٤ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : بَچھْیا [بَچھ + یا]
واحد غیر ندائی   : بَچھْڑے [بَچھ + ڑے]
جمع   : بَچھْڑے [بَچھ + ڑے]
جمع غیر ندائی   : بَچھْڑوں [بَچھ + ڑوں (و مجہول)]
١ - گائے کا نر بچہ، گو سالہ۔
 اس کے دینے کے لیے حاص کر آتا ہے سمیر اس کا بچھڑا اسی پربت کا بناتا ہے سمیر      ( ١٩٤٥ء، کمار سمبھو، ١ )
٢ - (پیار سے) انسان کا بچہ۔ (پلیٹس)۔
  • گَوسالَہ
  • نَوجَوَان